1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شینگن ممالک نے بارڈر کنٹرول کی مدت بڑھا دی

17 نومبر 2022

یورپی عدالت نے حال ہی میں فیصلہ دیا تھا کہ جرمنی، ڈنمارک اور دیگر شینگن ریاستوں کے پاس بارڈر کنٹرول کے سلسلے کی مدت بڑھانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/4JfOm
Deutschland Grenzkontrollen an der Grenze bei Kiefersfelden
تصویر: Frank Hoermann/SVEN SIMON/picture alliance

شینگن معاہدے پر دستخط کرنے والے 26 ممالک کے درمیان لوگ بغیر کسی سرحدی کنٹرول کے آزادی سے سفر کر سکتے ہیں۔ بارڈر کنٹرول صرف اسی صورت میں دوبارہ لاگو کیا جا سکتا ہے، جب سلامتی کے حوالے سے بہت ہی سنجیدہ خطرات موجود ہوں۔

یورپی یونین عدالت نے حال ہی میں فیصلہ دیا تھا کہ جرمنی، ڈنمارک اور دیگر شینگن ریاستوںکے پاس بارڈر کنٹرول کے اس سلسلے کی مدت بڑھانے کی کوئی وجہ نہیں ہے، جس کا دوبارہ اطلاق 2015ء میں کیا گیا تھا لیکن یورپین کمیشن اس فیصلے پر عملدرآمد میں ناکامی پر اقدامات کا ارادہ نہیں رکھتا۔

سن 2015ء میں شام، عراق اور افغانستان جیسے ممالک سے بڑی تعداد میں لوگوں کے یورپ کا رُخ کرنے کے بعد جرمنی، آسٹریا، ناروے، سویڈن، ڈنمارک اور فرانس نے مہاجرت اور دہشت گردی وغیرہ کے خدشات و خطرات کا اظہار کرتے ہوئے بارڈر کنٹرول پر عملدرآمد شروع کر دیا تھا۔ اب ان ممالک نے مزید چھ ماہ اس سلسلے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یورپی عدالت نے رواں برس اپریل میں فیصلہ دیا تھا کہ کسی بھی اعلان کردہ خطرے کے پیش نظر بارڈر کنٹرول کا سلسلہ چھ ماہ سے زیادہ وقت جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ اس فیصلے کے بعد سے یہ دوسرا موقع ہے کہ ان ممالک نے یہ سلسلہ مزید چھ ماہ کے لیے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی طرف سے 2019ء میں کیے گئے ایک جائزے سے معلوم ہوا تھا کہ یہ بارڈر کنٹرول شینگن معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس پر یورپی یونین کی رکن 22 ریاستوں کے علاو آئس لینڈ، لیشٹن شٹائن، ناروے اور سوئٹزرلینڈ کے لیے عملدرآمد قانونی طور پر لازمی ہے۔

’سیاسی طور پر انتہائی حساس معاملہ‘

عام طور پر یہ یورپی کمیشن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ رکن ریاستوں میں یورپی یونین کے قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ اس میں ناکامی پر ماضی میں بھاری جرمانے بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اسپین نے اس قانون پر عملدرآمد کو یقینی نہیں بنایا تھا کہ یورپی یونین کے شہریوں کو مناسب قیمت کے عوض بینک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ یورپی کمیشن نے 2018ء میں اسے یقینی بنائے کے لیے قانونی سازی مکمل کیے جانے تک اسپین پر روزانہ 50,000 یورو کا جرمانہ عائد کیا تھا۔

تاہم یورپی کمیشن نے بارڈر کنٹرول سے متعلق شینگن معاہدے کی اس خلاف ورزی کے خلاف کسی کارروائی کا آغاز نہیں کیا۔ جرمن شہر گیزن کی جسٹس لیبگ یونیورسٹی کے محقق لیون سوئلنگ کے بقول، ’’یہ معاملہ سیاسی طور پر بہت ہی حساس ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس کو یقینی بنانے کے لیے کوئی کارروائی کی جاتی ہے تو یہ رکن ریاستیں اور ان کے وزرائے داخلہ شدید خفا ہوں گے۔

ترک یونان سرحد پر نگرانی کا ہائی ٹیک نظام

یورپی کمیشن کی طرف سے تاہم اس معاملے پر اپنا نکتہ نظر دینے کے لیے ڈی ڈبلیو کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ جنوری 2021ء میں تاہم یورپین پارلیمان میں ایک پیشی کے موقع پر یورپی کمیشن نے کہا تھا کہ خلاف ورزی کی کارروائی شروع کرنے کی نسبت ان قوانین میں ضروری رد وبدل زیادہ بہتر حل ہو گا۔ کمیشن کی طرف سے اس وقت بتایا گیا کہ رکن ریاستوں کی طرف سے ان قواعد پر عمل درآمد روک دینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قوانین بذات خود ناکافی ہیں۔

کیرا شاخت (ا ب ا/ا ا)