صحافیوں کے حق میں میڈیا اداروں کا مودی کے نام خط
22 اکتوبر 2020یورپ کے دو بین الاقوامی میڈیا اداروں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے نام ایک مشترکہ مکتوب بھیجا ہے۔ اس میں حکومت سے فوری طور پر ایسے اقدمات کرنے کی اپیل کی گئی جس سے بھارت میں موجود صحافی بلا خوف و ہراس اپنا کام ایمانداری سے انجام دے سکیں۔ یہ مکتوب آسٹریا میں موجود عالمی میڈیا ادارے 'انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ' اور بیلجیئم کے 'انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ' نے لکھا ہے۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں درجنوں صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں، خاص طور پر انتہائی سخت اور سیاہ قانون کے تحت بغاوت جیسے مقدمات ان کے کام کی وجہ سے دائر کیے گئے ہیں۔ مشترکہ خط میں وزیر اعظم مودی سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ریاستوں کو اس طرح کے بے جا مقدمات واپس لینے کی ہدایت کریں۔
اس میں لکھا گیا ہے، ''وبائی امراض پھیلنے کے بعد سے صحافیوں کے خلاف درج ہونے والے مقدمات کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ صحت سے متعلق بحران کو ان افراد کو خاموش کرنے کے لیے زیادہ استعمال کیا جارہا ہے جنہوں نے حکومت کی ناکامیوں اور کوتاہیوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی۔ ایک آزاد معاشرے اور صحت عامہ کے لیے آزاد میڈیا کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔''
بھارت میں مودی کی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی میڈیا اور صحافیوں پر قدغن لگانے کا سلسلہ جاری ہے تاہم کورونا وائرس کی وبا کے دور میں صحافیوں کو مختلف بہانوں سے خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ ایک غیر سرکاری تنظیم 'رائٹس اینڈ رسک انالیسس گروپ' کے مطابق مارچ سے مئی کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں 55 صحافیوں کے خلاف کیسز درج کیے گئے۔
کورونا وائرس کے بعد لاک ڈاون کی وجہ سے بالخصوص عوام اور مزدوروں کو درپیش مسائل اور پریشانیوں کی خبریں دینے والے صحافیوں کو حکومت کے عتاب کا شکارہونا پڑ رہا ہے۔ سب سے زیادہ مقدمات ریاست اترپردیش کے صحافیوں کے خلاف درج ہوئے جہاں گیارہ صحافی جیل بھیجے گئے۔ دوسرے نمبر پر جموں و کشمیر ہے جہاں صحافیوں کو آئے دن ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ حراست میں لیے جانے والے ایسے صحافیوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے اثاثوں کو تبا ہ کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
غیر اعلانیہ ایمرجنسی
اسی ہفتے بھارتی حکومت نے کشمیر کے معروف اخبار 'کشمیر ٹائمز' کے سرینگر کے دفتر کو تالا لگا دیا تھا۔ اخبار کا کہنا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے اس کے خلاف یہ انتقامی کارروائی کی گئی۔
کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر نے انورادھا بھسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا تھا کہ ان کا اخبار کشمیر سے متعلق حکومت کی پالسیوں اور اس کی کارروائیوں پر مسلسل تنقید کرتا رہا ہے۔ ''ہم عوام کی آواز بننے کی کوشش کرتے رہے ہیں، ہمارے اداریے اور مضامین حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ اور حکومت اپنے خلاف آواز سننے کو ہرگز تیار نہیں ہے وہ ایسی ہر آواز کو خاموش کردینا چاہتے ہیں۔''
بھارت میں بعض سیاسی تجزیہ کار اسے غیر اعلانیہ ایمرجنسی قرار دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق حکومت اپنے خلاف کوئی بھی رپورٹ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض قومی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو اپنے ایڈیٹروں کو صرف اس لیے نکالنا پڑا کیوں کہ ان کے اداریوں سے حکومت پریشانی محسوس کررہی تھی۔
میڈیا اداروں نے لکھا ہے کہ ''آزاد اور سوال کرنے والے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے ان پر ملک سے غداری جیسے قوانین کا استعمال نہ صرف ملکی آئین کے خلاف ہے بلکہ بھارت کے اپنے بھی بین الاقوامی وعدوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یہ حکومت کی جانب سے کسی بھی تنقید کو خاموش کرنے کی کوشش کے سوا کچھ بھی ہے۔ صحافتی سرگرمی ملک سے بغاوت یا پھر سکیورٹی کو مجروح کرنے کے مترادف قطعی نہیں ہوسکتی۔''
ان تنظیموں نے مودی سے گزارش کی ہے کہ وہ تمام ریاستی حکومتوں کو ہدایت دیں کہ صحافیوں کے خلاف تمام نوعیت کے جو مقدمات دائر کیے گئے ہیں انہیں فوری طور پر واپس لیا جائے۔
صحافیوں کے خلاف زیادتیوں کی مذمت
اس دوران بھارت میں صحافیوں کی انجمن 'ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا' نے کارواں کے میگزین کے صحافی آہان پینکر کے خلاف پولیس کی زیادتیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ دہلی پولیس نے صحافی آہان کو حراست میں لے کر انہیں ما راپیٹا تھا۔گلڈ نے پولیس پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ''پولیس نے ان پر یہ جانتے ہوئے بھی حملہ کیا کہ وہ ایک صحافی ہیں اور ان کے تمام شناختی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد بھی انہیں رہا نہیں کیا۔
گزشتہ دو ماہ کے دوران کارواں میگزین کے چار صحافی پولیس کی زیادتیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ پریس کلب آف انڈیا نے بھی پولیس کی زیادتیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور پولیس حکام کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
بھارت میں گزشتہ چھ برسوں کے دوران صحافیوں کے لیے بے خوفی اور ایمانداری سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنا کافی مشکل ہوگیا ہے۔
پیرس سے کام کرنے والے ادارے رپورٹرز ود آوٹ بارڈر نے حال ہی میں کہا تھا کہ بھارت میں صحافتی آزادی کی حالت مسلسل بگڑتی جارہی ہے۔ ادارے نے 2020 میں دنیا بھر کی صحافت کی صورت حال پر جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں بھارت 142ویں مقام پر ہے۔ صحافتی آزادی کے لحاظ سے بھارت کی حالت اس کے پڑوسی ممالک نیپال، بھوٹان اور سری لنکا سے بھی بدتر ہے۔