1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صحافیوں کے خلاف مقدمات نے بحث چھیڑ دی

15 جون 2023

صحافیوں کے خلاف حال ہی میں قائم کیے گئے مقدمات نے صحافیوں اور معاشرے کے دیگر حلقوں کے درمیان ایک بحث چھیڑ دی ہے۔

https://p.dw.com/p/4ScIY
Pakistan | Sicherheitsbeamte vor der Residenz Imran Khans in Lahore
تصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

اینکر ڈاکٹر معید پیرزادہ، وجاہت ایس خان، شاہین صہبائی اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج نے صحافی برادری میں جی ایچ کیو کے میڈیا پرسنز کی قربت کے حوالے سے شدید بحث چھیڑ دی ہے اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو جی ایچ کیو کے ساتھ صرف پیشہ ورانہ تعلقات رکھنے چاہئیں جو اپنے فرائض انجام دینے کے لیے ضروری ہیں۔

پاکستان میں صحافیوں پر حملوں میں دو تہائی اضافہ

پاکستان میں صحافیوں پر حملوں میں گزشتہ برس تریسٹھ فیصد اضافہ

واضح رہے کہ ماضی میں جی ایچ کیو کے حامی سمجھے جانے والے صحافی معید پیرزادہ اور دیگر کے خلاف ایف آئی آرز میں مختلف سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں اور ان کے مخالفین نے ان پر ماضی میں جمہوری حکومتوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا الزام لگایا تھا۔ صحافی برادری کے ناقدین کا خیال ہے کہ میڈیا کے لوگوں کو کسی سیاسی جماعت کا پروپیگنڈہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی فوج کا ایجنڈا پیش کرنا چاہیے۔ ان میں سے کچھ کا خیال ہے کہ ماضی میں اگر چند صحافیوں نے فوج کے پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا تھا، لیکن اگر ریاست ان کے ساتھ ناانصافی کرتی ہے تو حقیقی اور پیشہ ور صحافیوں کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔

ماضی میں صحافیوں نے پروپیگنڈہ کیا

صحافی برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بعض صحافی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے مقتدر قوتوں کے لیے پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ یہ بدقسمتی ہے کہ میڈیا والوں نے معروضی رپورٹنگ چھوڑ دی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہے کہ ڈاکٹر معید پیرزادہ، شاہین صہبائی، سمیع ابراہیم اور دیگر نے ملک کی جمہوری حکومتوں کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کا پروپیگنڈہ کیا اور 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے واقعات کے بعد وہ سازش کا حصہ بن گئے، ملک میں بغاوت کو ہوا دی، جس سے انہیں بچنا چاہیے تھا۔‘‘

خیال کیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی صحافیوں نے اسٹیبلشمنٹ کی بولی بولی اور ان ہی کا نقطہ نظر پیش کیا لیکن پی ایف یو جے کی ایک اور رہنما فوزیہ شاہد اس سے اختلاف رکھتی ہیں۔ فوزیہ شاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "1990 کی دہائی کے دوران بہت سے صحافیوں نے ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر پی پی پی حکومت کے خلاف بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈہ کیا، ان میں سے کچھ بعد میں ن لیگ کے رہنما بن گئے۔ پی ٹی آئی کے صحافی ہی نہیں تھے جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کا پروپیگنڈہ کیا بلکہ دوسروں نے بھی ایسا کیا۔‘‘

فوزیہ شاہد کہتی ہیں کہ PFUJ کا ضابطہ اخلاق اور صحافتی اخلاقیاتصحافیوں کے طاقتور حلقوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بالکل واضح ہیں۔''چونکہ پاکستان اب دو دہائیوں سے تنازعات کا مشاہدہ کر رہا ہے، اس لیے آئی ایس پی آر یا عسکری ذرائع خبروں کے اجتماعات کے لیے اہم ہیں لیکن اگر کوئی صحافی یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ حقائق کی عکاسی نہیں کرتے ہیں، تو آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں دعووں کی جوابی جانچ پڑتال اور تصدیق ہونی چاہیے۔‘‘

کہانی بڑے گھر کی اصل میں پاکستان کی کہانی ہے، عاصمہ شیرازی

صحافی برادری کی مبینہ خاموشی

یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ صحافی برادری سیاسی رائے پر منقسم ہے اور میڈیا والوں کے لیے خاطر خواہ آواز نہیں اٹھائی جا رہی۔ جو ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے حامی تھے اور اب اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کے خلاف کھل کر پی ٹی آئی کی حمایت کر رہے ہیں۔ فوزیہ شاہد کا خیال ہے کہ یہ غلط تاثر ہے کہ صحافی برادری حقیقی صحافیوں کی حمایت نہیں کر رہی۔ ’’ پی ایف یو جے نے سمیع ابراہیم کی حمایت کی اور پیشہ ور صحافیوں کے لیے آواز اٹھائی لیکن پیرا شوٹرز میں فرق ہونا چاہیے جن کی حمایت نہیں کی جا سکتی، کیونکہ وہ صحافت کرنے کے بجائے پروپیگنڈا کرتے ہیں۔‘‘

ناصر زیدی کا موقف ہے کہصحافیوں کو سپورٹ کیا جانا چاہیے۔ ''لیکن صحافی قانون سے بالاتر نہیں ہیں، اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں دوسرے شہریوں کی طرح قانون کا سامنا کرنا چاہیے لیکن ہم فوجی عدالتوں اور عام شہریوں کے لیے فوجی قوانین کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ اگر کسی صحافی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس پر سویلین عدالتوں میں مقدمہ چلنا چاہیے۔‘‘