1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدام اور قذافی اقتدار میں ہوتے تو دنیا بہتر جگہ ہوتی، ٹرمپ

شامل شمس26 اکتوبر 2015

امریکی ریپبلکن پارٹی کی صدارتی امیدواری کی دوڑ میں شریک ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر قذافی اور صدام زندہ ہوتے تو مشرق وسطیٰ کی حالت یہ نہ ہوتی جو آج ہے۔

https://p.dw.com/p/1GuAs
تصویر: Getty Images/J. Sullivan

اتوار کے روز امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر متوقع طور پر سابق عراقی صدر صدام حسین اور لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی کی بالواسطہ تعریف کر ڈالی۔ واضح رہے کہ صدام کو سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے تھے، اور ان کو موت کی سزا پر عمل درآمد سن دو ہزار چھ میں ہوا تھا۔ دوسری جانب قذافی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد لیبیا میں باغیوں نے انہیں سن دو ہزار گیارہ میں قتل کر دیا تھا۔

صدام کی حکومت کا خاتمہ سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور حکومت میں ہوا تھا، جن کا تعلق ٹرمپ کی طرح ریپبلکن پارٹی ہی سے ہے۔ قذافی کو ڈیموکریٹ صدر باراک اوباما کے دور میں اقتدار سے ہٹایا گیا۔ تاہم ٹرمپ نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ دونوں رہنما حیات ہوتے اور اقتدار میں بھی ہوتے تو مشرق وسطیٰ کی صورت حال مستحکم ہوتی۔ ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ ٹاک شو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدواری کی خواہش مند اور سابقہ وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور موجودہ صدر اوباما کو بھی تنقید کا ہدف بنایا۔ خیال رہے کہ قذافی کی موت کے وقت امریکی وزیر خارجہ کلنٹن ہی تھیں۔

ٹرمپ کہتے ہیں: ’’لوگوں کے سر قلم کیے جا رہے ہیں۔ وہ سمندر میں ڈوب کر مر رہے ہیں۔ یہ صورت حال اس سے کہیں بری ہے جب صدام اور قذافی اقتدار میں تھے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں: ’’لیبیا کو ہی دیکھیے۔ وہ تباہ ہو چکا ہے۔ عراق برباد ہو چکا ہے۔ شام نیست و نابود ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں آگ لگی ہے، جس کو بھڑکانے میں کلنٹن اور اوباما کا ہاتھ ہے۔‘‘

ٹرمپ نے عراق کو ’’دہشت گردی کی ہارورڈ یونیورسٹی‘‘ بھی قرار دیا۔

’’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ صدام اچھا آدمی تھا۔ وہ بہت برا شخص تھا۔ مگر جب کی صورت حال آج کی صورت حال سے بہتر تھی۔‘‘

ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا کو عراق کا تیل حاصل کرنا چاہیے تھا، جو کہ اب چین خرید رہا ہے اور جو ایران اور داعش کے پاس بھی جا رہا ہے۔

امریکا کے صدارتی انتخابات اگلے برس کے آخر میں ہونا ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کی جانب سے ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے ہلیری کلنٹن کے درمیان ہی مقابلے کی توقع ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ یہ دونوں اپنی اپنی جماعتوں کی جانب سے صدارتی امیدوار نامزد کر دیے جائیں گے۔