1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدر اوباما کا بیان :مسئلہ کشمیر کےحل کی پیشکش

9 نومبر 2010

امریکی صدر اوباما نے اپنے حالیہ دورہء بھارت کے دوران جہاں بھارتی خواہش کے مطابق پاکستان پر تنقید سے گریز کیا وہیں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ امریکہ ان دونوں ملکوں پر اس مسئلے کا کوئی حل مسلط نہیں کر سکتا۔

https://p.dw.com/p/Q2Ve
باراک اوباما: دورہء بھارت کے دوران پاکستان کے حوالے سے محتاط رویہتصویر: AP

تاہم باراک اوباما نے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی خواہش پر امریکہ اس معاملے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ صدر اوباما کے اس بیان کو بھارت اور کشمیری رہنما اپنے اپنے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

واشنگٹن میں کشمیر امریکی کونسل کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر غلام نبی فائی کا کہنا ہے کہ امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر اور خطے میں امن کو براہ راست امریکہ کی قومی سلامتی سے منسلک کیا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امریکہ کی نظر مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف ہے۔

ڈوئچے ویلے کو دئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر فائی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو امریکہ کی قومی سلامتی سے منسلک کرنے کا مطلب ہے کہ افغانستان میں امریکہ کو پاکستان کی مکمل حمایت درکار ہے۔ اس لئے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان کی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فائی نے کہا کہ بھارت کے لئے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔

Asif Ali Zardari
پاکستانی صدر آصف علی زرداریتصویر: pa / dpa

انہوں نے کہا کہ یہ نشست حاصل کرنے کے لئے بھارت کو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا ہوگا کیونکہ بھارت نے ان قراردادوں پر دستخط کئے تھے۔

ڈاکٹر فائی نے کہا کہ امریکہ کی ثالثی تبھی ممکن ہوگی جب بھارت بھی اس پر رضا مند ہو لیکن بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کسی تیسرے فریق کی مداخلت کو ہمیشہ ہی مسترد کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر اوباما کی کشمیر کے حوالے سے کی جانے والی گفتگو سے یہ بات اب واضح ہوگئی ہے کہ کشمیر بھارت کا ’اٹوٹ انگ‘ نہیں بلکہ ایک عالمی تنازعہ ہے۔ پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر ڈاکٹر فائی نے کہا کہ صدر اوباما کے دورے کے بعد اس سال کے آخر تک بھارت اور پاکستان کے مابین بات چیت شروع ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب کشمیر میں سرگرم مشترکہ جہاد کونسل کے رہنما سید صلاح الدین نے کہا ہے کہ امریکہ کو ’’مسئلہ کشمیر سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ امریکی صدر صرف امریکی مفاد میں کشمیر کے حوالے سے کچھ باتیں کر کے پاکستان کو بہلا‘‘ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ صدر اوباما کشمیر کے حوالے سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے، جس سے بھارت ناراض ہو۔ تاہم سید صلاح الدین نے کہا کہ اس دورے کے دوران یہ ایک بات ضرور ہوئی ہے کہ ’’کم از کم مسئلہ کشمیر کو عالمی تنازعہ تسلیم کر لیا گیا۔‘‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ کو افغانستان کی جنگ اور دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں پاکستان کی مددکی ضرور ت ہے تو پھر امریکہ کو کھل کر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کوششیں کرنا ہوں گی۔

امریکی صدر نے اپنے حالیہ دورہء بھارت میں گو پاکستان کے حوالے سے محتاط رویہ اختیار کیا مگر حالیہ دنوں میں صدر آصف علی زرداری اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان ملاقات میں واشنگٹن کو یہ پیغام ضرور دے دیا گیا کہ اسٹریٹیجک معاملات،مسئلہ کشمیر اور دہشت گردی کی خلاف عالمی جنگ میں پاکستانی فوج اور حکومت کی پالیسی میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں