صدر ایردوآن کے دورے سے قبل ترک جرمن تعلقات مسلسل کشیدہ
6 اگست 2018جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی پیر چھ اگست کو انقرہ اور برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اگر ان دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری کے پیمانے کے طور پر مختلف حقائق پر نظر ڈالی جائے، تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان دونوں ملکوں کے باہمی روابط میں پایا جانے والا کھچاؤ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ترکی نے گزشتہ برس یعنی 2017ء میں مجموعی طور پر 95 جرمن شہریوں کو اپنی قومی سرحدوں سے واپس بھیجتے ہوئے ملک میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس سال صرف پہلے سات ماہ کے دوران ایسے جرمن شہریوں کی تعداد 54 ہو چکی تھی۔
دوسری طرف گزشتہ برس کے پہلے سات ماہ کے دوران اگر ترکی میں 24 جرمن شہریوں کو سیاسی وجوہات کی بناء پر حراست میں لیا گیا تھا، تو اس سال اب تک ایسے جرمن شہریوں کی تعداد چھ ہو چکی ہے، جنہیں ترکی میں سیاسی وجوہات کی بناء پر گرفتار کر لیا گیا۔ اس طرح اس سال اب تک یہ شرح گزشتہ برس کے اسی عرصے کے مقابلے میں اگرچہ کافی کم ہوئی ہے، لیکن ترکی میں جرمن شہریوں کا سیاسی وجوہات کے باعث گرفتار کیا جانا ابھی تک ختم نہیں ہوا۔
اس کے علاوہ کم از کم تین جرمن شہری ایسے بھی ہیں، جو ابھی تک ترکی کی مختلف جیلوں میں قید ہیں اور جنہیں 2016ء اور 2017ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ڈی پی اے کے مطابق یہ وہ سرکاری اعداد و شمار ہیں، جو جرمنی میں ریاستی امور کے وزیر مملکت میشاعیل رَوتھ کی طرف سے وفاقی جرمن پارلیمان میں بائیں بازو کی جماعت دی لِنکے کے ایک رکن آلیکسانڈر نوئے کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں پیش کیے گئے۔
ترکی اور جرمنی کے تعلقات اس وقت سے کافی کشیدہ ہیں، جب جولائی 2016ء میں ترک افواج کے ایک حصے کی طرف سے مسلح بغاوت کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ اس دوران ترک نژاد جرمن صحافی ڈینیز یُوچیل کی ترکی میں طویل حراست سے لے کر جرمن وزارت خارجہ کی طرف سے ملکی شہریوں کو ترکی کے سفر کے خلاف وارننگ جاری کیے جانے تک اس دوطرفہ کھچاؤ میں کئی زیر و بم آئے۔
اب لیکن ایسے آثار دکھائی دے رہے ہیں کہ یہ دوطرفہ کشیدگی کچھ کم ہو رہی ہے تاہم مکمل طور پر ختم یہ ابھی تک نہیں ہوئی۔ ان حالات میں انقرہ اور برلن کی طرف سے اگرچہ آپس کی کشیدگی کو کم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاہم یہ ابھی تک نہیں کہا جا سکتا کہ ترک جرمن کشیدگی اب مکمل طور پر ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔
ترکی میں صدارتی پارلیمانی نظام جمہوریت متعارف کرائے جانے اور اپنے دوبارہ انتخاب کے بعد صدر ایردوآن پہلی بار اگلے ماہ ستمبر میں جرمنی کا دورہ کریں گے۔ اس کے علاوہ اکتوبر میں جرمن وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائر بھی ترکی جائیں گے اور جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس بھی جلد ہی ترکی کا اپنا پہلا سرکاری دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس پیش رفت کے باوجود انقرہ اور برلن کے باہمی روابط میں دوطرفہ کشیدگی ابھی اتنی کم نہیں ہوئی کہ یہ کہا جا سکے کہ اپنے اگلے دورے پر جب صدر ایردوآن جرمنی آئیں گے تو ترک سربراہ مملکت کے لیے گرمجوشی کے ساتھ ساتھ ترکی پر کوئی تنقید بھی نہیں کی جائے گی۔
اس بارے میں وفاقی جرمن پارلیمان میں بائیں بازو کی جماعت دی لِنکے کے رکن آلیکسانڈر نوئے نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’ترکی میں ایردوآن انتظامیہ ابھی تک جرمن شہریوں کو حراست میں لینے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے اور اس بارے میں برلن حکومت نے جو رویہ اپنا رکھا ہے، اسے یورپی اقدار کے دیوالیہ پن کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔‘‘
م م / ع ت / ڈی پی اے