صدر حامد کرزئی کے قتل کی سازش بے نقاب، چھ افراد گرفتار
6 اکتوبر 2011انٹیلیجنس سروس کے ترجمان لطف اللہ مشعل نے کابل میں کہا کہ اس سازش میں صدر کرزئی کا ایک محافظ اور کابل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر اور تین طلباء بھی ملوث تھے۔ ان کے بقول یہ گروہ انتہائی مہذب اور پڑھے لکھے افراد پر مشتمل تھا اور اس نے افغان دارالحکومت میں دہشت گردی کی غرض سے بھیجے گئے پاکستانی عسکریت پسندوں کی معاونت کی تھی۔ مشعل نے کہا کہ کابل، امریکہ اور برطانیہ میں حملوں کی مبینہ منصوبہ بندی کرنے والے گروپ کو پاکستان میں موجود مصری اور بنگلہ دیشی نژاد دو افراد نے بھرتی کیا تھا۔
حالیہ دنوں میں افغان حکام نے پاکستان اور اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر حقانی گروپ سمیت عسکریت پسندوں کے ساتھ روابط رکھنے کے کھلے عام الزامات لگائے ہیں۔ منگل کو انہوں نے دعوٰی کیا تھا کہ پاکستانی حکام کو سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے قتل کے بارے میں پیشگی علم تھا۔ پاکستان نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔
مشعل نے کہا کہ سیف اللہ نامی مصری نژاد شخص اور عبد اللہ نامی بنگلہ دیشی نژاد عسکریت پسند شمالی وزیرستان ایجنسی کے صدر مقام میران شاہ میں مقیم ہیں۔ انہوں نے چھ افغان شہریوں کو بھرتی کیا تاکہ کابل، امریکہ اور برطانیہ میں دہشت گردی کے حملے کیے جا سکیں۔ وہ صدر کرزئی کے ایک اہم محافظ کو بھی ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کا منصوبہ تھا کہ صدر کرزئی کو صوبوں کے دورے کے موقع پر قتل کر دیا جائے۔ انہوں نے گروہ کی جانب سے امریکہ یا یورپ میں حملوں کی منصوبہ بندی کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
گرفتار ہونے والے افراد میں کابل یونیورسٹی کے میڈیکل پروفیسر ڈاکٹر ایمل حبیب اسد اللہ، اسی یونیورسٹی کے میڈیکل کے سال چہارم کے طلباء مبو اللہ احمدی اور رحمت اللہ امین، کابل کی ایک نجی یونیورسٹی کے طالب علم پرویز، یونیورسٹی کے طالب علم عبد الحمید مشعل اور کابل کا رہائشی عبد البشیر شامل ہیں۔
مشعل نے کہا کہ ان میں سے کئی افراد نے پشاور میں دھماکہ خیز مواد اور ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت حاصل کی تھی۔ اس گروہ کی کابل کے ایک بینک اکاؤنٹ میں 150,000 ڈالر تک رسائی تھی اور ان کے پاس کمپیوٹر اور دیگر حساس آلات بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ گروہ کا مقصد اعلیٰ سطحی افغان حکام کو قتل کرنا اور کابل میں غیر ملکیوں کے زیر استعمال گیسٹ ہاؤسز اور دیگر اہداف کی نشاندہی کرنا تھا۔
سن 2001ء میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد صدر حامد کرزئی پر چار بار قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے جس میں وہ محفوظ رہے ہیں۔
ایک اور پیشرفت میں افغانستان میں امریکی زیر قیادت اتحادی فوج نے کہا کہ ملک کے مشرقی صوبہ خوست میں ہونے والے ایک فضائی حملے میں حقانی نیٹ ورک کا دلاور نامی ایک سینئر رہنما مارا گیا ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: ندیم گِل