1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صنف کی بنیاد پر امتیاز بھی ’ہراسگی’، سپریم کورٹ کا فیصلہ

عبدالستار، اسلام آباد
1 ستمبر 2022

سپریم کورٹ کے فیصلے میں صنف کی بنیاد پر امتیاز کو بھی ہراسگی قرار دے دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور خواتین کارکنان نے امید ظاہر کی ہے کہ اس فیصلے اور اس کی تشریح سے ہراسگی کے واقعات کی روک تھام میں مدد ملے گی۔

https://p.dw.com/p/4GKGg
Pakistan Islamabad | Internationaler Frauentag 2019
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

پاکستانی سپریم کورٹ نے بدھ کو اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی ایسا عمل جو صنفی امتیاز کی بنیاد پر ہو یا جس سے کام کے لیے غیر سازگار ماحول پیدا ہو، وہ کام کی جگہ پر ہراسگی کے خلاف خواتین کے تحفظ  کے لیے بنائے جانے والے ترمیمی ایکٹ کے ہی دائرہ کار میں آئے گا، جو اسی سال منظور ہوا تھا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف جنس کی بنیاد پر مساوی مواقع نہ فراہم کرنا یا کسی کی قابلیتوں کو صرف جنس کی بنیاد پر ہدف تنقید بنانا بھی اس ایکٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

بلقیس بانو کیس: مجرموں کی رہائی پر حکومت سے وضاحت طلب

سیلاب سے متاثرہ خواتین کی ان ضروریات کا خیال رکھیں!

پاکستانی سیاست اور خواتین سیاست دانوں کی کردار کُشی

فیصلہ سنانے والی دو رکنی بینچ کی سربراہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کی جبکہ بینچ کے دوسرے رکن جسٹس منصور علی شاہ تھے۔

قابل ستائش لیکن مزید اقدامات درکار

سول سوسائٹی نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ہراسگی کے واقعات کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرپرسن اسد بٹ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ قابل ستائش ہے۔ تاہم ان کے خیال میں ہراسگی کے واقعات کو مکمل طور پر روکنے کے لیے بہت سارے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قوانین بنا لیے جاتے ہیں اور ادارے بھی بنا لیے جاتے ہیں لیکن ان اداروں کو وسائل فراہم نہیں کیے جاتے۔ اس کی ایک مثال نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق ہے، جس میں افرادی قوت کی بھی کمی ہے اور دوسرے وسائل کی بھی۔‘‘

قوانین پر عمل در آمد کا فقدان

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ حکومت قوانین تو بنا لیتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرتی۔ اسد بٹ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ''ہراسگی کے حوالے سے حکومت نے قانون بنایا کہ تمام ادارے اور تنظیمیں اپنے اپنے کام کی جگہ ہراسگی کے خلاف ایک کمیٹی بنائیں گی۔ اگر کسی ملازم، خصوصاً خاتون ملازم، کو کسی بھی طرح کی ہراسمنٹ کا سامنا ہو، تو وہ اس کمیٹی میں شکایت درج کرائے۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر اداروں نے یہ کمیٹی ہی نہیں بنائی۔‘‘

رکن قومی اسمبلی کشور زہرا کا بھی یہی خیال ہے کہ ہراسمنٹ کو روکنے کے لیے قوانین پر عملدرآمد ضروری ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''پولیس اور عدالتی اداروں میں اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔‘‘

Pakistan | Frauen bei der Polizei in Pakistan
تصویر: Abdul Majeed/AFP

خواتین کی نمائندگی

پاکستان کے کئی اداروں، بشمول عدالتوں میں خواتین کی موجودگی یا نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی ایک مثال ملکی سپریم کورٹ ہی ہے، جہاں صرف ایک خاتون جج ہیں۔ پولیس میں بھی ایک بڑی تعداد مردوں کی ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ میں بھی خواتین کی نمائندگی ان کی آبادی میں شرح کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مہناز رحمٰن کا کہنا ہے کہ مختلف اداروں میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں ہراسگی کے خلاف بنائے جانے والے محتسب کے ادارے پر بھی تحفظات ہیں۔ قانون کی رو سے اس ادارے کا سربراہ مرد بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس ادارے کا سربراہ کسی خاتون کو ہونا چاہیے۔ چاہے وہ خاتون جج ہو یا کوئی اور۔‘‘

ایک مقدمہ، ایک مثال

انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق جون سن 2016 میں پی ٹی وی کی ایک ملازمہ سمیت چار دیگر خاتون اینکرز نے ادارے کے ایک مرد افسر کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ مقدمے میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ مذکورہ افسر خواتین کو ہراساں کرتا ہے۔ وہ ان پر جملے کستا ہے، کھانے پر لے جانے کی پیشکش کرتا ہے، ہوٹل میں کمرہ بک کرانے کا کہتا ہے، بن بلائے ان کے گھر پہنچ جاتا ہے اور اپنی پیشکوں کو ماننے کے لیے مجبور کرتا ہے جبکہ انکار پر دھمکیاں دیتا ہے۔

شکایت کنندہ نے اس حوالے سے پہلے وفاقی محتسب سے رابطہ کیا، جہاں وفاقی محتسب نے اس افسر کے خلاف فیصلہ دیا لیکن سزا معمولی دی گئی۔ مذکورہ افسر اور شکایت کنندہ دونوں نے سن 2016 میں صدر مملکت سے رجوع کیا، جس پر اس افسر کی سزا میں اضافہ کر دیا گیا۔ پھر یہ مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچا، جہاں عدالت نے وفاقی محتسب کا فیصلہ برقرار رکھا۔

سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے برعکس اس افسر کی سزا میں اضافہ کیا اور اسے ہرجانہ ادا کرنے کا بھی کہا گیا۔

مہناز رحمٰن کے مطابق ایسے مقدمات کے فیصلے وقت پر ہونے چاہییں۔ ''یہ مقدمہ سن 2016 میں درج ہوا تھا اور اس کا فیصلہ اب سن 2022 میں آیا ہے۔ لہذا ہمیں ایسا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے کہ اس طرح کے مقدمات کا فیصلہ جلد از جلد ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ اداروں کو اسٹاف اور وسائل فراہم کیے جائیں۔‘‘

پاکستان: لڑکیاں اپنا دفاع خود کیسے کرسکتی ہیں؟