صنفی مساوات کے معاملے میں بھارت مزید پیچھے
18 دسمبر 2019ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے جاری گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق صنفی مساوات کے معاملے میں بھارت اپنے پڑوسی ممالک بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور چین سے بھی پیچھے ہے۔ البتہ اس کی پوزیشن پاکستان سے بہتر ہے۔
سن 2006ء میں جب ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی پہلی پورٹ جاری کی تھی اس وقت بھارت اس فہرست میں 96ویں مقام پر تھا لیکن گزشتہ برسوں میں اس کی پوزیشن خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ پچھلے برس یہ 108ویں مقام پر تھا جو مزید چار درجے گر کر اب 112ویں مقام پر آگیا ہے۔
اس فہرست میں چین 106ویں، سری لنکا 102ویں، نیپال 101ویں اور بنگلہ دیش 50ویں مقام پر ہے۔ پاکستان اس فہرست میں 151ویں مقام پر ہے۔
رپورٹ میں جن 153ملکوں میں صنفی مساوات کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے ان میں بھارت واحد ملک ہے جہاں اقتصادی صنفی خلیج سیاسی صنفی خلیج کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کی لیبر مارکیٹ میں مردوں کی شرح 82 فیصد ہے۔ بھارت اقتصادی سرگرمیوں میں خواتین کی شرکت کے لحاظ سے دنیا میں سب سے کم شرح والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ یہ 145ویں پوزیشن پر ہے۔ مرد اور خواتین کی آمدنی میں بھی کافی فرق ہے۔ خواتین کی آمدنی مردوں کی آمدنی کا صرف پانچواں حصہ ہے۔ اس معاملے میں بھارت 144ویں مقام پر ہے۔ بھارت کا شمار ان ملکوں میں ہو رہا ہے جہاں خواتین کے لیے اقتصادی مواقع بہت کم ہیں۔ کمپنیوں کے بورڈز میں خواتین کی نمائندگی صرف 13.8فیصد ہے۔ صحت اور بقا (سروائیول)کے معاملے میں بھی بھارت کافی پیچھے ہے اور اس وقت یہ 150ویں نمبر پر ہے۔
ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی سماج پیچھے کی طرف جارہا ہے۔ یہاں خواتین کے ساتھ عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے اورانہیں ملنے والی سہولیات کم ہوئی ہیں۔
بھارت میں خواتین کی ہر سطح پر شراکت یقینی بنانے کے لیے پچھلے چندبرسوں کے دوران بہت سارے قوانین بنائے گئے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہیں نافذ کرنے والا عملہ اور سماج کا ایک بڑا طبقہ اپنی پدر سری سوچ سے اوپر نہیں اٹھ سکا ہے۔ سماج کا ڈھانچہ بھی اسی سوچ پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کو آج بھی مناسب مواقع نہیں مل پا رہے۔ نہ صرف غریب بلکہ مڈل کلاس خاندانوں میں بھی کھانے پینے کی چیزوں پر پہلا حق مردوں کا ہوتا ہے اور ان سے جو کچھ بچ جاتا ہے وہی خواتین کے حصے میں آتا ہے۔ اس رویے کا آغاز بچپن سے ہی ہوجاتا ہے۔ بیماری اور حمل کی دوران بھی خواتین کو غذائیت بخش کھانے نہیں ملتے۔ یہی حال تعلیم کا ہے۔ روایتی سو چ کے تحت بیٹوں کو بیٹیوں سے بہتر تعلیم دی جاتی ہے۔ گوخواتین اب ملازمت میں آ رہی ہیں لیکن کام کے مقامات کاماحول ان کے مناسب نہیں ہے۔ پرائیوٹ کمپنیاں حاملہ خواتین اور ماں بننے کے بعد خواتین کو چھٹی اور کچھ مراعات دینے کے بجائے ان سے پیچھا چھڑالینا بہتر سمجھتی ہیں۔ تمام قانونی اقدامات کے باوجود سماج میں خواتین کے لیے تحفظ اور سلامتی یقینی نہیں ہوپا رہی ہے۔ ان کے خلاف ہونے والے جرائم میں مجرموں کی سزا کی شرح اب بھی بہت کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق خواتین کو سیاسی لحاظ سے بااختیار بنانے کے معاملے میں حالات ذرا بہتر ہوئے ہیں تاہم قا نون ساز اداروں میں ان کی نمائندگی اب بھی بہت کم ہے۔ لوک سبھا میں ان کی تعداد صرف14فیصد ہے۔
دہلی میں حکمراں عام آدمی پارٹی کی سینئر رہنما آتشی مرلینا کا کہنا ہے، ”بھارت جیسے ملک میں خواتین کے لیے پبلک ڈومین میں رہنے والے پروفیشن میں کام کرنا مشکل ہے۔ جس ملک میں صنفی تناسب کی خلیج کو ہی کم نہیں کیا گیا ہو وہاں پر خواتین کی سیاست میں شراکت اور سیاست میں نمائندگی دُور کا خواب ہے۔ ایسی خواتین سیاست دانوں کی تعداد برائے نام ہے جن کے خاندان میں پہلے کوئی سیاست داں نہیں رہا ہو۔ خود سے آگے بڑھنے والی خواتین کو یہاں پر بڑی مشکل سے کامیابی مل پاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں خواتین کی شراکت اور نمائندگی بہت کم ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے اعلٰی تعلیم یافتہ آتشی مرلینا دہلی میں تعلیم کے شعبے میں اپنے کام کے لیے قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں لیکن پچھلے عام انتخابات میں وہ سیاست کے میدان میں پہلی مرتبہ قدم رکھنے والے سابق کرکٹ کھلاڑی اور بی جے پی کے امیدوارگوتم گمبھیر سے ہار گئی تھیں۔