صومالیہ: ہلاکتوں کی تعداد 100 کے قریب ہو گئی
28 دسمبر 2019مقامی پولیس افسر احمد باشان کا جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''اس خوفناک دھماکے میں تقریباﹰ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔‘‘ اس ٹرک بم دھماکے کے بعد زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں پہنچایا گیا تھا۔ جرمن نیوز ایجنسی کے مطابق شافی ہسپتال کی انتظامیہ نے آٹھ ہلاکتوں اور درجنوں زخمیوں کی تصدیق کی ہے۔ اسی طرح مدینہ ہسپتال کی انتظامیہ نے 73 ہلاکتوں اور 54 زخمیوں کا ذکر کیا ہے۔ موغادیشو کے دیگر ہسپتالوں میں بھی زخمیوں کے علاوہ کئی لاشیں لائی جا چکی ہیں۔ مقامی پولیس نے ہلاکتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
قبل ازیں موغادیشو کے مئیر عمر محمد نے کہا تھا کہ نوے افراد زخمی ہیں، جن میں متعدد طلبہ بھی شامل ہیں۔ ایک چیک پوائنٹ پر ہونے والے اس حملے کی ابھی تک کسی بھی گروہ یا عسکریت پسند تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن مقامی میڈیا میں ایسے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس کے پیچھے جہادی تنظیم الشباب کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
ایک حکومتی ترجمان کے مطابق جس وقت یہ حملہ کیا گیا، اس وقت اس چیک پوائنٹ پر بہت سے لوگ جمع تھے۔ بہت سے طلبہ اسکولوں اور کالجوں میں جانے کے لیے اس چیک پوائنٹ کے قریب کھڑے تھے جبکہ دیگر افراد اپنے اپنے دفتروں یا خریداری کے لیے بازاروں میں جانے کی خاطر اس چیک پوائنٹ سے گزرنے کے انتظار میں تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق جس وقت یہ دھماکا ہوا، وہاں دو ایسی چھوٹی بسیں بھی موجود تھیں، جن میں اسکولوں کے بچے سوار تھے۔ بم دھماکے کی شدت سے وہ دونوں چھوٹی بسیں بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ حکومتی ترجمان علی حسن کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں پانچ پولیس افسران بھی شامل ہیں، جو وہاں ڈیوٹی پر موجود تھے۔
مقامی پولیس نے اس حملے میں تین ترک شہریوں کی ہلاکت کی بھی تصدیق کر دی ہے۔ بظاہر یہ تینوں ترک شہری انجینئر تھے، جو موغادیشو سے افگوئے جانے والی سڑک کی تعمیر میں تکنیکی مدد کے لیے وہاں موجود تھے۔ صومالیہ میں ترک سفارت خانے نے آخری خبریں آنے تک اس بم دھماکے میں دو ترک شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
دریں اثناء ترکی نے اپنی ایک بیس رکنی طبی ٹیم صومالیہ روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ وہاں زخمیوں کی مدد کی جا سکے۔ روس کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کے متعدد رہنماؤں نے اس خونریز حملے کی مذمت کرتے ہوئے صومالیہ کو اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ا ا / م م (اے یف پی، اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)