ضرب عضب کا حتمی مرحلہ اور متاثرین کی مشکلات
4 اپریل 2016پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق اس وقت ملکی فوجی دستے شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں، جو کارروائیاں کر رہے ہیں، وہ اس آپریشن کے حتمی مرحلے کا حصہ ہیں۔ آئی ایس پی آر کے ایک بیان کے مطابق اس مرحلے کے دوران 252 عسکریت پسند ہلاک کر دیے گئے جبکہ 160 زخمی ہوئے۔ انہی کارروائیوں کے دوران آٹھ فوجی ہلاک اور 39 زخمی بھی ہوئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اس مرحلے کے دوران اب تک فوج شمالی وزیرستان میں شوال کا 640 مربع کلومیٹر کا علاقہ بھی شدت پسندوں سے صاف کروا چکی ہے۔
دوسری جانب اس آپریشن کی وجہ سے بے گھر ہونے والے متاثرین کی بحالی کا کام بھی جاری ہے۔ وفاق کے زیر انتظام فاٹا کہلانے والے قبائلی علاقوں میں ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق شمالی وزیرستان میں اب تک ایک لاکھ تیس ہزار متاثرہ خاندانوں کو رجسڑ کیا جا چکا ہے۔
اس کے برعکس انہی متاثرین کے نمائندوں پر مشتمل امن کمیٹی کے سیکرٹری جنرل ملک غلام خان وزیر نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ متاثرہ خاندانوں کی اصل تعداد ڈیڑھ لاکھ بنتی ہے، جن میں سے 20 ہزار کے قریب خاندان مختلف وجوہات کی بناء پر رجسٹر نہیں کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاندان کیمپوں میں جیل جیسی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
ملک غلام خان وزیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’حکومت صرف خالی دعوے کر رہی ہے کہ متاثرین کی بحالی کے لیے یہ کیا جا رہا ہے، وہ کیا جا رہا ہے۔ کچھ بھی نہیں کیا جا رہا۔ ہاں، البتہ دعوؤں پر زور ہے اور وہ بھی جھوٹے۔ صحت کی صورتحال کیمپوں میں انتہائی مخدوش ہے، خاص طور پر بچوں اور خواتین کے لیے کوئی سہولیات نہیں ہیں۔‘‘
انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں مزید کہا، ’’جب آپریشن شروع ہوا تھا تو حکومت نے کہا تھا کہ تین ماہ میں مکمل طور پر متاثرین کی واپسی ہو گی۔ لیکن ابھی تک صرف تقریباﹰ تیس ہزار خاندان ہی واپس گئے ہیں۔ واپس جانے والوں پر بھی پابندیاں عائد ہیں۔ وہ بنوں یا کسی بھی دوسرے علاقے میں اس وقت تک نہیں جا سکتے جب تک کہ وہ باقاعدہ اجازت نہ لے لیں۔ یعنی ان کی آزادی سلب کر لی گئی ہے۔ نہ کوئی روزگار ہے اور نہ کوئی پوچھنے والا۔‘‘
ضرب عضب کے متاثرین کی امن کمیٹی کے اس رہنما نے کہا کہ اب وفاقی حکومت کے مطابق رواں برس نومبر تک تمام متاثرین کو واپس بھیج دیا جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ابھی تو صرف 36 فیصد کی واپسی ممکن ہوئی ہے تو باقی ماندہ تمام خاندانوں کو حکومت کس طرح نومبر تک واپس بھیج سکتی ہے؟ حکومت کو چاہیے کہ 300 یا 500 تک خاندان روزانہ کے حساب سے واپس بھیجے جائیں تاکہ نومبر تک یہ ہدف حاصل ہو سکے، ’’ہمارا سب کچھ تباہ کر دیا گیا ہے۔ گھر، دکانیں، کاروبار اور حکومت کہتی ہے کہ ہر گھر کی تعمیر نو کے لیے صرف چار چار لاکھ معاوضہ دیا جائے گا۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ زیادہ تر متاثرین کو اعلان کردہ رقم بھی مہیا نہیں کی جا رہی۔‘‘
اسی بارے میں وزیر اعظم نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محمد نظیر سے جب ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا، تو انہوں نے کہا کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اسی کوشش میں ہیں کہ متاثرین کی واپسی سے پہلے ان کے علاقوں میں تباہ شدہ اسکولوں، بازاروں، ہسپتالوں اور سڑکوں وغیرہ کی بحالی کا کام مکمل کیا جائے اور پھر انہیں زیادہ تیز رفتاری سے واپس ان کے علاقوں میں بھیجا جائے۔ لیکن متاثرین کا مطالبہ ہے کہ پہلے انہیں ان کے آبائی علاقوں میں واپس بھیجا جائے اور پھر ان کے سامنے بحالی کے منصوبے مکمل کیے جائیں۔
ایم این اے محمد نظیر نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر متاثرہ افراد کے اس مطالبے کے حامی ہیں کیونکہ اس طرح واپسی پر انہیں اپنے لیے روزگار کے بہتر مواقع میسر آ سکیں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ شمالی وزیرستان میں اب تک 94 ترقیاتی منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں اورجنوبی وزیرستان میں تیسرے مرحلے میں 153 منصوبوں پر کام جاری ہے۔ ان کے مطابق شمالی وزیرستان سے آنے والے متاثرین کی باقاعدہ منصوبے کے تحت واپسی جاری ہے اور اب تک 30 ہزار سے زائد خاندان واپس اپنے گھروں کو جا چکے ہیں۔