ضمنی انتخابات میری مقبولیت پر ریفرنڈم ہیں، عمران خان
15 اکتوبر 2022اپریل کے مہینے میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے جاری مسلسل سیاسی رسہ کشی میں یہ ضمنی انتخاب ایک نیا موڑ بن کر سامنے آ رہے ہیں۔
انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب ملک مون سون کے سیلاب سے پیدا ہونے والے شدید بحران سے دوچار ہے۔ سیلابوں کے نتیجے میں 30 ملین سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں اور ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا۔
ضمنی انتخابات یا ریفرنڈم؟
پاکستان کے انتخابات میں امیدوار متعدد نشستوں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ ایک سے زیادہ نشستیں جیت جاتے ہیں تو امیدوار خود منتخب کرتا ہے کہ اسے کون سی نشست برقرار رکھنا ہے، جب کہ دیگر نشستوں پر پھر سے انتخابات کرائے جاتے ہیں۔
تاہم، ایسا بھی شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی امیدوار اتنی نشستوں پر کھڑا ہو جائے، جتنی نشتوں پر اس بار عمران خان الیکشن لڑ رہے ہیں۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ انہوں نے اپنی مقبولیت کا اندازہ لگانے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے.
کراچی میں جمعے کی رات دیر گئے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا، ’’یہ صرف کوئی سادہ انتخابات نہیں ہے، یہ ایک ریفرنڈم ہے۔‘‘
ضمنی انتخابات کے نتائج دباؤ بڑھا سکتے ہیں؟
عمران خان نے اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد سے درجنوں ریلیاں نکالیں اور بڑے بڑے جلسے کیے ہیں۔ ان میں عمران خان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ جلد ہی دارالحکومت اسلام آباد کی جانب اپنے حامیوں کے ’لانگ مارچ‘ کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔
وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت اگلے سال اکتوبر تک انتظار کرنے کی بجائے فوری طور پر عام انتخابات کا مطالبہ کرے۔
سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا،’’اگر وہ زیادہ تر نشستیں جیت جاتے ہیں تو وہ حکومت پر مزید دباؤ ڈالیں گے۔ لیکن حکومت یہ دعویٰ کرتے ہوئے انتخابات کا مطالبے کو مسترد کر دے گی کہ یہ نتائج قومی امنگوں کی ترجمانی نہیں کرتے۔‘‘
عمران خان پہلے ہی حالیہ ضمنی انتخابات میں کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں اور انہی کی بدولت تحریک انصاف پنجاب میں اکثریت حاصل کر کے برسراقتدار بھی آ چکی ہے۔
عمران خان اور ان کی جماعت کے خلاف درج کیے گئے کئی مقدمات بھی زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئے۔
پاکستان کی عدالتوں کو اکثر قانون سازوں کے خلاف طویل اور تھکا دینے والے مقدمات کے ذریعے دباؤ میں لانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے انسانی حقوق کے کارکن حزب اختلاف کو دبانے کی ایسی کوششوں پر تنقید کرتے ہیں۔
عمران خان افراط زر میں اضافے کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو قرار دیتے ہیں، حالانکہ زیادہ تر تجزیہ کار اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس حکومت کو بھی ملک کی موجودہ معاشی مشکلات ورثے میں ملی ہیں۔
عمران خان 2018 میں سماجی اصلاحات، مذہبی قدامت پسندی اور بدعنوانی کے خلاف جنگ کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار میں آئے تھے۔ تاہم ، ان کے دور میں معیشت جمود کا شکار ہو گئی اور انہوں نے فوج کی حمایت کھو دی۔
ش ح/ک م (اے ایف پی)