1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلم ریسرچ اسکالر پر پانچ ریاستوں میں مقدمے

30 جنوری 2020

بغاوت کے الزام میں ریسرچ اسکالر شرجیل امام کوگرفتار کر کے پوچھ گچھ کے لیے دلی لایا گيا ہے، حیران کن خبر بات یہ ہے کہ چوتھی جماعت کے طلبہ سے بھی بغاوت کے سلسلے میں پولیس پوچھ گچھ کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3WyU2
JNU Proteste Studenten Delhi
تصویر: DW/S. Ghosh

بغاوت کے الزام میں ریسرچ اسکالر شرجیل امام کوگرفتار کر کے پوچھ گچھ کے لیے نئی دہلی لایا گيا ہے، حیران کن بات یہ ہے کہ پولیس چوتھی جماعت کے طلبہ سے بھی بغاوت کے سلسلے میں پولیس پوچھ گچھ کر رہی ہے۔

نئی دہلی کی پولیس نے معروف جواہر لال یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر شرجیل امام کو ریاست بہار کے جہاں آباد نامی شہر سےگرفتار کیا ہے۔ ریاستی حکومتوں کا الزام ہے کہ انہوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں خطاب کرتے ہوئے ملک مخالف بیانات دیے تھے۔ دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ امام نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے کیمپس میں اشتعال انگیز  باتیں کی تھیں۔ نئی دہلی کے علاوہ ریاست آسام میں ان پر دہشت گردی، اروناچل پردیش، اتر پردیش اور منی پور کی ریاستوں میں ان پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا ہے۔ عدالت میں اگر بغاوت ثابت ہوجائے تو انہیں عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔  

 شرجیل امام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ہونہار طالب علم ہیں، جو بھارت کے پروقار کہلائے جانے والے 'انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینیجمنٹ'سے کمپیوٹر سائنس میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد آئی ٹی کے شعبے میں بھارت اور یورپ میں کام کر چکے ہیں۔ تاہم تعلیم کے شوق میں انہوں نے بھارت واپس آ کر جے این یو میں داخلہ لیا، جہاں وہ 'جدید بھارتی تاریخ' پر ریسرچ کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی کے شاہین باغ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے اہتمام کا آغاز شرجیل امام نے کیا تھا لیکن بعد میں وہ اس سے یہ کہہ کر کنارہ کش ہوگئے کہ اس دھرنے میں سیاسی مداخلت بڑھ گئی ہے۔

الزام کیا ہے؟

شہریت سے متعلق قانون کے خلاف احتجاج میں وہ آگے آگے رہے ہیں اور ایسے مظاہروں سے انہوں نے  بارہا خطاب بھی کیا ہے۔ حال ہی میں ان کی ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوئی، جس میں وہ لوگوں سے مظاہرہ کرنے اور سڑکوں پر نکلنے کا کہہ رہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پانچ لاکھ لوگ باہر آجائیں تو شمال مشرقی ریاستیں بھارت سے منقطع ہو سکتی ہیں،’’آسام اور انڈیا کٹ کر الگ ہوجائیں، تب یہ ہماری بات سنیں گے۔‘‘ حکمراں جماعت بی جے پی کا کہنا ہے کہ ان کا یہ بیان بھارت کی یکجہتی اور سالمیت کے خلاف ہے۔ جن ریاستوں میں بھی ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہوا ہے ان سب میں بی جے پی کی حکومت ہے۔

Sharjeel Imana
نئی دہلی کی پولیس نے معروف جواہر لال یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر شرجیل امام کو ریاست بہار کے جہاں آباد نامی شہر سےگرفتار کیا ہے۔تصویر: DW/Z. Salahuddi

شرجیل امام کی والدہ افشاں نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ شرجیل کی چالیس منٹ کی تقریر سے صرف چند سیکنڈ کاٹ کر ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے،’’میرا بیٹا معصوم ہے، ہاں شہریت سے متعلق قانون سے وہ پریشان ضرور ہے، جس سے مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ تمام غریب عوام کو پریشانی ہوگی۔‘‘ دہلی کے انتخابات میں بی جے پی کا اہم موضوع شاہین باغ ہے اور اس حوالے سے شرجیل امام بھی اب اس کے نشانے پر ہیں۔

ادھر ریاست کرناٹک میں پولیس نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے کے لیے بیدر کے معروف شاہین باغ اسکول کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا ہے۔ اسکول کے ترجمان نے توصیف میڈیکری نے بتایا کہ پرائمری اسکول میں چوتھی جماعت کے طلبہ نے اپنے سالانہ جلسے میں ایک ڈرامہ پیش کیا، جس میں شہریت سے متعلق قانون پر نکتہ چینی کی گئی تھی،’’پولیس نے اس کے لیے اسکول انتظامیہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا اور چوتھی جماعت کے بچوں سے پوچھ گچھ کی ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں توصیف نے کہا کہ اس ڈرامے میں قابل اعتراض بات ایک مکالمہ ہے، جس میں کہا گيا ہے کہ این آر سی کے لیے ’’دستاویزات نہیں دکھائیں گے اور مانگنے پر چپل سے ماریں گے‘‘۔ توصیف میڈیکری کے بقول اس کے لیے سکول انتظامیہ، بچوں اور ان کے والدین  نے معذرت بھی پیش کر دی ہے لیکن پھر بھی کیس درج کر لیا گيا۔ایک سوال کے جواب میں توصیف نے کہا، "چونکہ یہ ایک شاندار اقلیتی ادارہ ہے اس لیے صرف ہمیں ہراساں کرنے کے لیے یہ کیس درج کیا گيا ہے۔ پولیس نے سیاسی دباؤ میں آکر یہ کیا ہے، جس کی وجہ ملک میں موجودہ سیاسی فضا ہے۔"

شاہین اسکول کے بانیوں میں سے ایک سیّد تنویر، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چونکہ بی جے پی حکومت شہریت سے متعلق قانون کے خلاف کوئی بھی بات برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اس لیے "یہ اسکول انتظامیہ کو ہراساں کرنے اور بچوں کو ستانے کے لیے کیا گيا ہے، ہم تو مظلوم ہیں لیکن سب کہہ رہے ہیں کہ ادارے کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔"

حیدرآباد نظام کے دور سے ہی جنوبی شہر بیدر اپنی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کے لیے معروف رہا ہے۔ یہاں کا شاہین اسکول اپنی تعلیم و تریبت کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے، جس کی ملک بھر میں شاخیں ہیں۔