1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

طالبان افغانستان میں زیادتیاں بند کریں، ایمنسٹی انٹرنیشنل

6 مارچ 2023

ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے اپیل کی ہے کہ وہ طالبان حکمرانوں کی طرف سے ’انتہائی زیادتیاں‘ بشمول خواتین اور آزادی اظہار پر پابندیوں جیسے مسائل کا سختی سے نوٹس لے۔

https://p.dw.com/p/4OK28
Afghanistan Frauenbildung
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance

اگست 2021ء  میں امریکہ اور دیگر نیٹو فورسز کے افغانستان سے مکمل انخلا کے آخری دنوں میں افغان طالبان نے ملک میں ایک زیادہ معتدل موقف اختیار کرنے کے وعدے کے باوجود  کابل میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک اپنے پچھلے دور سے بھی زیادہ سخت اقدامات اور قوانین نافذ کیے ہیں۔

افغانستان میں خواتین کی عوامی زندگی

طالبان  نے خواتین کی عوامی زندگی میں شمولیت اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر کے افغان لڑکیوں اور خواتین کے حال کو تو برباد کیا ہی ہے، ان کا مستقبل بھی تاریک نظر آ رہا ہے۔ افغان طالبان نے نا صرف چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کی بلکہ طالبان کی عدالتوں کے فیصلے کے تحت سر عام پھانسی  کی سزاؤں اور اقلیتی برادری کے خلاف کریک ڈاؤن کا کھُلے عام مظاہرہ کر کے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ طالبان خواتین کو بُری طرح اپنی بہیمانہ زیادتیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔  

    

Bilder des Jahres 2022 | Afghanistan Hunger
کابل میں ایک سڑک کے کنارے بیٹھی خاتون اپنے شیر خوار کی بھوک کا احتجاج کر رہی ہےتصویر: ALI KHARA/REUTERS

حالیہ مہینوں میں انسانی حقوق کے محافظ، ماہرین تعلیم اور تعلیم کے شعبے کے کارکنان کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا۔ ان کارکنوں کی گرفتاریاں طالبانکی طرف سے بالکل من مانی ہیں۔ گرفتار شدہ یا حراست میں لیے گئے افراد کے پاس کوئی قانونی راستہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کے اہل خانہ تک ان کی رسائی ممکن ہے۔

انسانی حقوق کی کونسل سے مطالبہ

لندن میں مقیم واچ ڈاگ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے افغانستان میں جلد از جلد ایک آزاد 'تفتیشی میکینزم‘  قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ کے ممبران سے استثنیٰ ختم کرنے اور طالبان کی زیادتیوں کا شکار ہونے والوں  کے لیے انصاف کو یقینی بنانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی خاتون جنرل سکریٹری کا کہنا تھا،'' افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال تیزی سے خراب ہو رہی ہے اور طالبان کی لاتعداد زیادتیاں ہر روز  جاری ہیں۔‘‘

انسانی حقوق کے لیے سرگرم اس گروپ نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ طالبان کی بدسلوکی کے بارے میں کھلے عام یا عوامی طور پر تنقید کرتے ہیں انہیں بغیر کسی وضاحت کے گرفتار کیا جاتا ہے۔

Taliban Exekution Frau Öffentlich
طالبان ماضی میں بھی خواتین کو سر عام قتل کرتے رہے ہیںتصویر: RAWA/World PIcture News RAWA/WorldPictureNews

جبکہ خواتین کے حقوق کے خلاف کریک ڈاؤن اور اقلیتوں کا سرعام قتل جیسے کہ  ہزارہ  نسلی گروپ کے قتل عام کی وارداتیں بے لگام جاری ہیں۔

ایمنسٹی نے کہا ہے کہ حراست میں لیے گئے افراد میں خواتین کے حقوق کی محافظ نرگس سادات بھی شامل ہیں۔ سول سوسائٹی کے کارکن  فردین فدائی، مصنف اور کارکن زکریا اصولی اور افغان فرانسیسی صحافی مرتضٰی بہبودی بھی۔ سابقہ افغان قانون ساز قیس خان وکیلی اور صحافی محمد یار مجروح بھی شامل ہیں۔

ایمنسٹی کی اس رپورٹ پر تاہم طالبان کے ترجمان فوری طور پر تبصرہ کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔

اسلامک اسٹیٹ نے افغانستان میں بربریت کا کھیل شروع کر دیا

ک م/ اا (اے پی ای)