طالبان امن مذاکرات کی پیشکش پر شش و پنج میں مبتلا کیوں؟
14 مارچ 2018تجزیہ کاروں کے مطابق افغان صدر کو مذاکرات کی پیشکش کیے دو ہفتے گزر چکے ہیں جس کے دوران طالبان کی جانب سے صرف بیان اور ایک غیر دستخط شدہ تبصرہ ان کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے۔ طالبان کے اس ردعمل سے امریکی حکام کو شدید مایوسی ہوئی کیونکہ امریکا کی نظر میں مذاکرات کی تجویز نہایت ’جراتمندانہ‘ قدم ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان صدر کی اس پیشکش نے طالبان کو مخمضے میں ڈال دیا ہے۔ اگر مذاکرات کی پیشکش کو طالبان ٹھکرا دیتے ہیں تو افغان اور امریکی فورسز کو ان کے خلاف فضائی حملوں کا جواز مل جائے گا۔ لیکن اگر پیشکش قبول کر لی تو دوسرے جنگجو گروہوں کے سامنے ان کی ساکھ متاثر ہو گی کیونکہ طالبان ایک طویل عرصے سے افغان حکومت کو امریکا کی کٹھ پتلی قرار دیتے آئے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ایک تجزیہ کار برہان عثمان کا بھی کہنا ہے کہ اگر پیشکش قبول کر لی گئی تو، ’یہ فیصلہ مورچہ بند کئی ممبران کے لیے ناقابل قبول ہوسکتا ہے۔‘
کابل میں 28 فروری کو ہوئی بین الاقوامی کانفرنس میں افغان صدر نے طالبان کو باقاعدہ مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔ اسی کانفرنس میں افغان صدر نے اس امکان کا بھی اظہار کیا تھا کہ اگر جنگ بندی کا معاہدہ طے پا جائے تو طالبان کو ایک سیاسی جماعت کا درجہ مل سکتا ہے۔
شام افغانستان سے زيادہ محفوظ ملک ہے، جرمن سياسی جماعت
پاکستان اور افغان طالبان کے لئے امریکا کا نرم گوشہ
اس کے جواب میں طالبان نے اپنی ویب سائٹ پر جو غیر دستخط شدہ کمنٹری شائع کی، اس میں طالبان نے اپنا یہ ہی موقف دہرایا کہ وہ کابل حکومت سے نہیں بلکہ واشنگٹن سے مصالحت کی گفتگو کے لیے تیار ہیں۔ کابل حکومت ،‘امریکی حملہ آوروں‘ کی ’ غلام حکومت‘ ہے۔ اس کے ایک ہفتے بعد ہی ایک اور بیان جاری کیا گیا جس میں افغان حکومت کو ’ناجائز‘ اور امن کی کوششوں کو گمراہ کن قرار دیا گیا۔اس بیان میں جکارتا میں ہونے والی اسلامی اسکالرز کانفرنس کے بائیکاٹ کا بھی پیغام دیا گیا جس میں افغانستان میں قیام امن کے امکانات پر بات کی جانی ہے۔