طالبان اور اقوامِ متحدہ میں خفیہ روابط
19 مارچ 2010طالبان سے یہ روابط مختلف ذرائع سے کئے گئے۔ تاہم یہ روابط پاکستان میں طالبان کے چند اہم رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد یکدم ختم ہوگئے تھے۔
ایک برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہیں ناروے سے تعلق رکھنے والے اقوامِ متحدہ کے اس سابقہ نمائندے نے ان روابط کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا: "طالبان سے پہلا رابطہ گزشتہ سال ہوا تھا، لیکن پھر افغانستان میں صدارتی انتخابات کی وجہ سے ان رابطوں میں بہت حد تک کمی آ گئی۔ انتخابات کے بعد ان روابط میں ایک بار پھر تیزی آگئی تھی، جو چند ہفتے پہلے تک برقرار تھی۔"
کائی ایڈی نے کہا کہ یہ روابط طالبان کی سینیئر قیادت کے ساتھ تھے:"ہم طالبان کے سینیئر رہنماؤں سے ملے اور ہماری ملاقات اُن رہنماؤں سے بھی ہوئی تھی، جنہیں اس بات چیت کے لئے کوئٹہ شوریٰ کی حمایت حاصل تھی۔"
عالمی ادارے کے اس سابقہ خصوصی مندوب نے پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد حکومت نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو اُسے کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو علم تھا کہ وہ کس کو گرفتار کر رہے ہیں اور یہ کہ گرفتار ہونے والے عسکریت پسند رہنما مذاکرات میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ان گرفتاریوں کا طالبان کے ساتھ اقوام متحدہ کے خفیہ مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کائی ایڈی کے بقول اقوام متحدہ سے طالبان رہنماؤں کے یہ رابطے دبئی اور کچھ دوسرے ممالک میں ہوئے تھے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ افغان حکومت کے اہم نمائندوں سمیت کئی دیگر شخصیات کے ذریعے بھی طالبان سے رابطے کئے جا رہے ہیں۔ طالبان سے روابط کو ابتدائی نوعیت کی پیش رفت قرار دیتے ہوئے کائی ایڈی نے کہا کہ اطراف کے مابین اعتماد کی فضا پیدا کرنے میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔
دوسری طرف افغان صدر حامد کرزئی کے ایک مشیر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ صدر کرزئی ملا برادر کی گرفتاری پرآگ بگولہ ہوگئے تھے۔ اس مشیر نے دعویٰ کیا کہ ملا عبدالغنی برادر امن جرگے میں طالبان کے نمائندے کی شرکت کا اشارہ بھی دے چکے تھے۔ یہ تین روزہ جرگہ اگلے مہینے افغانستان میں ہوگا، جس کی میزبانی افغان حکومت کر رہی ہے۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: مقبول ملک