طالبان اور داعش نے درجنوں افغان شہری قتل کر دیے
7 اگست 2017افغان مقامی پولیس ALP (حکومت کی حامی ملیشیا) کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ شمالی صوبے سرِ پل میں ہفتے کو قابض ہو جانے والے طالبان اور داعش کے جنگجوؤں نے ایک گاؤں میں خواتین اور بچوں سمیت 50 افراد کو قتل کر دیا۔ اس ملیشیا کے مطابق اس گاؤں میں گزشتہ 48 گھنٹے سے جنگجوؤں کے خلاف مقامی افراد لڑائی میں مصروف ہیں۔
صوبائی گورنر کے ترجمان ذبیح اللہ عمانی کے مطابق، ’’یہ طالبان اور داعش کے جنگجوؤں کی ایک مشترکہ کارروائی تھی۔ انہوں نے دیگر صوبوں سے یہ جہادی بھرتی کیے اور مرزاوالنگ کے گاؤں پر چڑھائی کر دی۔‘‘
ترجمان نے الزام عائد کیا کہ یہ جنگجو طالبان لیڈر شیر محمد غضنفر کی قیادت میں جمع ہیں۔ یہ طالبان لیڈر اس سے قبل شام اور عراق میں سرگرم شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش سے وفاداری کا اعلان کر چکا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا، ’’ان جنگجوؤں نے گاؤں پر قبضہ کیا اور پھر وہاں معصوم شہریوں کا قتلِ عام شروع کر دیا گیا۔‘‘
عمانی کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں اکثریت شیعہ مسلمانوں کی تھی، جن میں سے زیادہ تر کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا، تاہم کچھ کے سر بھی قلم کیے گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس گاؤں تک براہ راست رسائی ممکن نہیں ہے، اس لیے ان خبروں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔
سرِ پل کی صوبائی کونسل کے سربراہ محمد نور رحمانی کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے 50 افراد میں سے 44 عام شہری تھے، جب کہ باقی مقامی ملیشیا کے رکن تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ہلاکتوں کی یہ تعداد حتمی نہیں ہے کیوں کہ ان اطلاعات تک رسائی بالواسطہ طور پر ممکن ہوئی ہے اور اس علاقے تک رسائی کے بعد ہلاکتوں کی اصل تعداد معلوم ہو سکے گی۔
یہ بات اہم ہے کہ طالبان اور اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو افغانستان کے مشرقی علاقوں میں ایک دوسرے سے برسرپیکار رہے ہیں اور ان دونوں کی کوشش ہے کہ وہ افغانستان پر اثرورسوخ بڑھائیں، تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں شدت پسند گروہوں کی جانب سے کوئی کارروائی مل کر کی گئی ہے۔