1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان اور پشتو فلم انڈسٹری کا مستقبل

رپورٹ: عروج رضا صیامی، ادارت: عابد حسین قریشی8 مئی 2009

‌پاکستانی صوبہ سرحد اور بلوچستان میں طالبان کی آمد، تباہی اور بم دھماکوں کے باوجود پشتو فلم انڈسٹری کا مستقبل بظاہر روشن نظر آرہا ہے۔

https://p.dw.com/p/HmLu
پشتو فلمیں نہ صرف پشاور بلکہ پاکستان کے تمام علاقوں میں شوق سے دیکھی جاتی ہیں
Badar Munir,berühmter Pushto Schauspieler
پشتو فلموں کے معروف اداکار بدر منیر جن کا گزشتہ برس ہی انتقال ہوا

پشتو فلم انڈسٹری کے مستقبل کے روشن ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ پاکستانی فلمی صنعت کی مجموعی زبوں حالی کے باوجود بہتری کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔

پشتو فلموں میں بدر منیر اور مسرت شاہین کے نام سارے پاکستان میں مشہور ہیں۔ بدر منیر اور اداکارہ نمی کی ایک پشتو فلم ناوے دا یؤشپے نے پاکستان کے اندر باکس آفس کے نئے ریکارڈ بھی قائم کئے۔ اِس فلم کو اردو میں دلہن ایک رات کے نام سے بنایا گیا تھا۔ مسرت شاہین نے فلم دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور ڈیرہ اسماعیل خان سے مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف عام انتخاب بھی حصہ لیا جو کہ ایک ناکام تجربہ تھا۔

Taliban- Anhänger in Pakistan nahe der afghanischen Grenze
طالبان شدّت پسندوں کے مطابق فلمیں بنانا، ان میں کام کرنا اور انہیں دیکھنا غیر شرعی ہےتصویر: AP


عجب گل جو اردو اور پشتو فلم انڈسٹری کے نامور اداکار اور ہدایت کار ہیں۔ سن اُنیس سو ننانوے میں سڑے سترگے کے نام سے پشتو فلم بنائی تھی۔ اس فلم نے یھی ثابت کر دیا کہ مناسب کہانی اور بہترموضوعات کے ساتھ پشتو فلم انڈسٹری میں ایک انقلاب لا سکتے ہیں۔

کچھ مہینے قبل ایک اور پشتو فلم ، قلم اور کلاشنکوف کے نام سے منظر عام پر آئی۔ اِس کو بھی محتاط حلقوں نے ایک معیاری فلم قرار دیا۔ جس کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ فلم کی کہانی فیض احمد نے لکھی تھی۔ پشتو فلم پروڈیوسرز پشتو فلم شائقین کے لیے اچھی اور معیاری فلمیں بنانے کی کوشش کر رہےہیں تاہم ابھی تک اس میں کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

اکثرعلاقائی لوگوں کا کہنا ہے کہ پشتو فلمیں ان کے کلچر یا ثقافت کی عکاس نہیں۔ اور اسی باعث پشتو فلمیں دیکھنے کے لئے سینما میں خواتین کہیں نظر نہیں آتی۔ لوگوں کا یھی ماننا ہے کہ یہ فلمیں خاندان کے ساتھ دیکھنے کے قابل ھیں ہی نہیں۔

Szene aus einem Film
پشتو فلموں کی ایک اداکارہتصویر: Pushto Film

پشتون لوگوں کی ثقافت بہت رنگارنگ اور اخلاقی اقدار سے بھری ہوتی ہے اگر پشتو فلم بناتے وقت ان روایات کا خیال رکھا جائے تو فلم نہ صرف معیاری ہوگی بلکہ شائقین کی تعداد میں اضافہ بھی ہوگا۔ سردست پشتو فلموں میں عامیانہ انداز میں خواتین اداکاروں کے غیر معیاری رقصوں کی بھرمار ہوتی ہے۔

فلم اسٹارارباز خان جو کہ مشہور پشتو فلم ہدایتکار اور اداکار آصف خان کے صاحبزادے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اچھی اور معیاری پشتو فلم بنانے کی ذمہ داری فلم پروڈیوسر پرعائد ہوتی ہےکہ وہ اپنی فلموں میں بندوق، لڑائی مار کٹائی اورغیراخلاقی رقص کے بجائےقلم، امن اور اخلاقیات سے بھرپور موضوعات دکھا کر فلموں میں تبدیلی لائیں تو معاشرے میں بھی تبدیلی ممکن ہوسکتی ہے۔

فلم سٹار نازو جو کہ پنجابی فلموں میں ہیرویین بننے آئی تھیں وہ اپنی ایک پشتو فلم کی کامیابی پر نہایت خوش وخرم ہیں اور کہتی ھیں کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں پشتو فلموں میں کام کرنے سے منع کیا تھا لیکن فلم پروڈیوسرنےانہیں ایک معیاری کہانی کی کشش دکھائی تھی۔

Pushto film Werbungin Peshawar
پشتوں فلموں کا ایک اشتہاری بورڈ

پشتوفلم انڈسٹری پر اسوقت لوگوں کے نظریں لگی ہویئں ہیں کیونکہ پاکستان کی زوال پذیر فلم انڈسٹری کوسنبھالنےکے لیے پشتو فلم سازوں،ہدایت کاروں،اداکاروں اورموسیقاروں کو ٹھوس،اخلاقی اور جراتمندانہ اقدام اٹھانا ہونگے وگرنہ اِس صنعت کا حال بھی اردو اور پنجابی فلموں جیسا ہو گا۔

نسیم خان پشتو فلموں کے مشہورپروڈیوسر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ پشتو فلموں پر ایک ایسا وقت بھی آیاجس دوران بنائی جانے والی فلموں نے پشتو فلموں کے منظر نامے کو سخت نقصان پہنچایا اور خرافات کا ایسا طوفان اٹھا تھا کہ اس سے پشتو فلموں کا مستقبل نہایت بھیانک دکھائی دینے لگا تھا مگر اب صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نسیم خان کا مزید کہنا ہے کہ پشتو فلم انڈسٹری کی جانب بڑھنے والا ایک اورطوفان سی ڈی کے ذریعے بننے والی فلمیں ہیں۔ جن میں نہایت غیراخلاقی رقص شامل ہوتے ہیں مگر وہ ایسی فلمیں نہیں بناتے اور ان کی سخت مذمت کرتے ہیں۔

Szene aus einem Film
مشہور پشتو اداکار آصف خان کے بیٹے ارباز خان جو اب ٹی وی اور فلموں میں کام کررہے ہیںتصویر: Pushto Film


پنجابی فلموں کے ایک ہدایتکار انجم پرویز کا ماننا ہے کہ ہمارے پختون بھائی، پنجابی، سندھی اوربلوچ سے زیادہ پرہیزگار، نمازی ہیں ۔ ا ن کی عورتیں آج بھی پردے میں رہتی ہیں تو ظاہر ہے کہ وہاں کے لوگ بھی ویسے رہن سہن کے پابند ہوں گے لیکن چند لوگوں نے سوچا کہ غیراخلاقی فلمیں بنا نے سے بزنس میں زیادہ فایدہ ہورہا ہے توانہوں نے ایسی غیر معیاری فلمیں بنانا شروع کر دیں اور وہ کامیاب بھی رہے۔

طالبان کے فروغ کے بعد پشاور سمیت کئی علاقوں میں اداکاری اور موسیقی کے مقامی دفتر اور سازنوازوں کے مرکز بند ہونے سے پشتو فلموں میں شامل ہونے کے ایک راستے کو بھی بند کردیا گیا ہے۔ اِس وجہ سے بھی کئی خاندان بے روزگاری کا شکار ہو چکے ہیں۔ سینما گھروں پر پابندی لگانے سے اِس انڈسٹری پر شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ پشتون آبادی کو تفریح کا سستا ذریعہ بھی ختم ہوا ہے۔

پاکستان میں فلمی صنعت کا مرکزی شہر لاہور ہے جہاں اردو، پنجابی اور دیگر زبانوں میں فلمیں بنانے کے لیے دو تین اسٹوڈیوز موجود ہیں لیکن فلمی صنعت میں زوال کے بعد یہاں کام کرنے والے فاقہ کشی کا شکار ہو رہے ہیں اور اگر پشتو فلموں کا بھی مکمل صفایا ہو گیا تو یہ اسٹوڈیوز بھی تھوڑی بہت رونقوں سے محروم ہو جائیں گے۔