1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان حکومت کے وزیر خارجہ کا امریکی کانگریس کے نام کھلا خط

17 نومبر 2021

طالبان کی جانب سے امریکی کانگریس کے نام ایک کھلے خط میں افغان عوام اور ملک کو درپیش معاشی بحران سے پیدا مشکلات کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ خط طالبان حکومت کے وزیر خارجہ کے دستخط سے جاری کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/436rK
USA Senat stopgap funding bill | Symbolbild
تصویر: Ting Shen/Xinhua/picture alliance

امریکی کانگریس کے نام اس کھلے خط میں افغانستان پر طالبان کی قیادت میں قائم حکومت کی جانب سے واضح کیا گیا کہ ان کے ملک کو انسانی اور معاشی بحرانوں کا سامنا ہے اور یہ شدید سے شدید تر ہو رہے ہیں۔ طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اس خط میں ان بحرانوں کی ایک بنیادی وجہ افغان سینٹرل بینک کے اثاثوں کو منجمد کرنا قرار دیا ہے۔

پاکستانی ہیکرز نے افغان صارفین کو نشانہ بنایا، فیس بک

اثاثے بحال کرنے کا مطالبہ

اس کھلے خط میں واضح کیا گیا کہ ملکی عوام کو جس بنیادی چیلنج کا سامنا ہے، وہ مالیاتی تحفظ سے ہے۔

Türkei Das Treffen zwischen dem türkischen Außenminister Mevlüt Cavusoglu und Taliban Außenminister Amir Khan Muttaqi in Ankara
ترکی کے دورے پر امیر خان متقی ترک وزیر خارجہ مولود کاؤس اولو سے ہاتھ ملاتے ہوئےتصویر: DHA

دوسری جانب طالبان حکومت کی جانب سے پہلے بھی تشویش کا  اظہار کیا جا چکا ہے کہ اگر مالیاتی مسائل اسی انداز میں جاری رہے تو سماجی پریشانیاں کے دوگنا ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ ان پریشانیوں میں تسلسل کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افغان شہریوں کی دوسرے ملکوں کی جانب مہاجرت یقینی ہے۔

افغان عوام کی پریشانیاں

افغانستان میں قائم طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اپنے خط میں افغان عوام کی شدید مشکلات اور پریشانیوں کو اجاگر کیا۔ افغان وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ مالیاتی مسائل سے ملک کے صحت اور تعلیم کے شعبوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

Afghanistan | Simon Gass trifft Amir Khan Muttaqi
برطانوی وزیر اعظم کے افغانستان کے لیے مقرر خصوصی نمائندے سائمن گاس اور امیر خان متقی کی ملاقات اکتوبر میں ہوئی تھیتصویر: social media/REUTERS

انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی بیان کیا کہ افغان بچوں کو کم خوراکی کا سامنا ہے اور خواتین  ناکافی طبی سہولیات کی وجہ سے دم توڑ رہی ہیں۔

طالبان شیعہ کمیونٹی کے محافظ لیکن اعتماد کی کمی

متقی نے تحریر کیا کہ افغان عوام کو لاحق پریشانیوں میں خوراک، شیلٹر، ادویات اور بنیادی ضروریات ہیں اور دوسری جانب ان لوگوں کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ متقی کے مطابق اثاثوں کو منجمد کرنے کی سیاسی یا منطقی وجوہات موجود نہیں ہیں۔ امیر خان متقی نے اپنے ملک میں پیدا اس ساری صورت حال کو انسانی معاملہ قرار دیا ہے۔

جاری امداد روک دی گئی

رواں برس اگست میں افغانستان کے طول و عرض پر طالبان عسکری تحریک نے کنٹرول حاصل کر کے حکومت قائم کی۔ اس حکومت کے قیام پر واشنگٹن حکومت نے افغان سینٹرل بینک کے امریکا میں موجود قریب نو ارب ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کر دیا تھا۔

Afghanistan | Welternährungsprogramm der UN in Kandahar
طالبان حکومت سے قبل افغان عوام کو اربوں ڈالر کی امداد کے علاوہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت خوراک بھی فراہم کی جاتی تھیتصویر: Sanaullah Seiam/Xinhua/picture alliance

ان اثاثوں کے منجمد کیے جانے سے قبل کابل میں مغرب کی حمایت یافتہ حکومت کو ساڑھے آٹھ بلین کی امداد سالانہ بنیاد پر فوجی اور سویلین مد میں دی جاتی تھی۔ اسی امداد سے پچھتر فیصد حکومتی اخراجات بشمول ملازمین کی تنخواہوں کو پورا کیا جاتا تھا۔

افغانستان میں خوراک کا بحران سابقہ حکومت کی 'میراث' ہے، طالبان

طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد لاکھوں افغان عوام کی بنیادی آمدن کا ذریعہ ختم ہو کر رہ گیا۔ اس کے علاوہ تعلیم، صحت اور پبلک سروسز کے شعبے بھی فعال نہیں رہے۔

ان گھمبیر مسائل کے تناظر میں اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ افغانستان کی معاشی و سماجی مسائل میں تسلسل رہا تو سن 2022 کے وسط تک ستانوے فیصد افغان شہریوں کو شدید غربت اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

ع ح/ع ا (ڈی پی اے)