1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان دور ميں جرمنی سے افغان مہاجرين کی پہلی ملک بدری

30 اگست 2024

تین سال قبل طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ افغان شہریوں کو جرمنی سے افغانستان ڈی پورٹ کیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے جرمن حکومت کے اقدام کو بين الاقوامی قوانين کی خلاف ورزی قرار ديا ہے۔

https://p.dw.com/p/4k6QY
جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفان ہیبسٹریٹ نے واپس بھجوائے گئے تمام افغان شہریوں کو سزا یافتہ مجرم قرار دیا
جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفان ہیبسٹریٹ نے واپس بھجوائے گئے تمام افغان شہریوں کو سزا یافتہ مجرم قرار دیاتصویر: Michael Kappeler/dpa/picture alliance

اگست 2021ء میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جرمنی نے آج جمعے کے روز پہلی بار اٹھائیس افغان شہریوں کو افغانستان ڈی پورٹ کر دیا ہے۔ جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفان ہیبسٹریٹ نے واپس بھجوائے گئے تمام افغان شہریوں کو سزا یافتہ مجرم قرار دیا لیکن ان کے جرائم کی وضاحت کے لیے تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔

وفاقی جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے اس معاملے کو جرمنی کی سکیورٹی سے جوڑا ہے۔ جرمنی کے طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں، جس کی وجہ سے برلن حکومت کو کابل میں حکمرانوں کے ساتھ روابط کے لیے دیگر  ذرائع کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔

افغان باشندوں کی ملک بدری جرمنی کے شہر زولنگن میں کیے گئے چاقو کے ایک مہلک حملے میں تین افراد کی ہلاکت کے واقعے کے ایک ہفتے بعد عمل میں آئی ہے
افغان باشندوں کی ملک بدری جرمنی کے شہر زولنگن میں کیے گئے چاقو کے ایک مہلک حملے میں تین افراد کی ہلاکت کے واقعے کے ایک ہفتے بعد عمل میں آئی ہےتصویر: Ina Fassbender/AFP/Getty Images

تاہم اس بات کا امکان نہیں دیکھا جا رہا کہ جرمن حکومت کے تازہ اقدام سے جرمنی اور طالبان کے درمیان تعلقات کو وسعت ملے گی، خاص طور پر گزشتہ ہفتے افغانستان میں متعارف کرائے گئے ان قوانین کے بعد، جن میں عورتوں کے لیے گھر سے باہر اپنا چہرہ، جسم اور آواز چھپانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پوسٹس میں طالبان کے اخلاقیات سے متعلق نئے قوانین کو تنقید کا نشانہ بنا چکی ہیں۔ جبکہ اسٹیفان ہیبسٹریٹ کا کہنا ہےکہا کہ ان افغانوں کی ملک بدری کا عمل مہینوں سے جاری تھا۔

افغان باشندوں کی ملک بدری جرمنی کے شہر زولنگن میں کیے گئے چاقو کے ایک مہلک حملے میں تین افراد کی ہلاکت کے واقعے کے ایک ہفتے بعد عمل میں آئی ہے۔ اس حملے میں مشتبہ شخص ایک شامی شہری ہے، جس نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی تھی۔

ملزم کو گزشتہ سال بلغاریہ ڈی پورٹ کیا جانا تھا لیکن وہ مبینہ طور پر کچھ دیر کے لیے غائب ہونے کے بعد ملک بدری سے بچ گیا تھا۔ اسے اتوار کو قتل اور دہشت گرد تنظیم میں رکنیت کے شبے میں مزید تفتیش اور ممکنہ فرد جرم کے تحت حراست میں لینے کا حکم دیا گیا تھا۔

دہشت گرد گروہ 'اسلامک اسٹیٹ‘ نے ثبوت فراہم کیے بغیر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس انتہا پسند گروپ نے اپنی نیوز ویب سائٹ پر کہا تھا کہ حملہ آور نے عیسائیوں کو نشانہ بنایا اور اس نے یہ حملے 'فلسطین اور ہر جگہ مسلمانوں کا بدلہ لینے کے لیے کیے۔‘ تاہم ان دعووں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔

رواں برس جون میں جرمن چانسلر اولاف شولس نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ جرمنی افغانستان اور شام سے تعلق رکھنے والے ايسے مہاجرين کو دوبارہ ملک بدر کرنا شروع کر دے گا، جو جرائم ميں ملوث ہوں
رواں برس جون میں جرمن چانسلر اولاف شولس نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ جرمنی افغانستان اور شام سے تعلق رکھنے والے ايسے مہاجرين کو دوبارہ ملک بدر کرنا شروع کر دے گا، جو جرائم ميں ملوث ہوںتصویر: Henning Kaiser/REUTERS

جرمن صوبوں سیکسنی اور تھورنگیا میں اتوار کو ہونے والے علاقائی انتخابات سے قبل امیگریشن کے موضوع پر بھی بحث ہو رہی ہے، جہاں امیگریشن مخالف پارٹیاں جیسے کہ پاپولسٹ الٹرنیٹو فار جرمنی کی اچھی کارکردگی کی توقع ہے۔

رواں برس جون میں جرمن چانسلر اولاف شولس نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ جرمنی افغانستان اور شام سے تعلق رکھنے والے ايسے مہاجرين کو دوبارہ ملک بدر کرنا شروع کر دے گا، جو جرائم ميں ملوث ہوں۔ انہوں نے یہ بیان ایک افغان تارک وطن کی طرف سے چاقو کے حملے میں ایک پولیس افسر کی ہلاکت اور چار افراد کے زخمی ہونے کے بعد دیا تھا۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق وزیر داخلہ نینسی فیزر نے جمعرات کو جرمنی میں چاقو رکھنے سے متعلق قوانین میں سختی لانے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ جرمن حکومتی اتحاد کے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ملک بدری کو آسان بنانے کا عہد بھی کیا تھا۔ جرمنی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل جولیا ڈکرو نے جمعے کو ایک بیان میں افغانوں کی ملک بدری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت انتخابی مہم کے دوران سیاسی دباؤ کے سامنے جھک گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان محفوظ نہیں ہے اور الزام لگایا کہ افغان شہریوں کی ملک بدری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

 ش ر⁄ ع س (اے پی)

افغانستان میں صنفی تعصب کے خلاف جرمنی میں بھوک ہڑتال