1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

طالبان سے مکالمت میں ماہرانہ سفارتکاری ضروری، جرمن وزیر دفاع

11 ستمبر 2021

طالبان کے ساتھ بات چیت اور ان کی حکومت کو تسلیم کرنا ایک ہی بات قرار نہیں دیے جا سکتے۔ یہ بات جرمن وزیر دفاع آنے گرَیٹ کرامپ کارین باؤر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی۔

https://p.dw.com/p/40CGM
Deutschland | Wunstorf | Rückkehr der Bundeswehr aus Afghanistan | Kramp-Karrenbauer
تصویر: Axel Heimken/AFP/Getty Images

ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں جرمن وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ برلن حکومت طالبان کے ساتھ ماہرانہ سفارت کاری سے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانے کی خواہش مند ہے۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ اس بات چیت کا مطلب کابل میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا قطعاﹰ نہیں۔

اف‍غانستان کی صورت حال: عالمی و علاقائی قوتوں میں مشاورت شروع

انہوں  نے اس انٹرویو میں واضح کیا کہ اس بات چیت کی ضرورت اس لیے ہے کہ اس جنگ زدہ ملک میں پھنسے ہوئے افراد کا انخلا دوبارہ شروع کیا جا سکے۔

جرمن وزیر دفاع آنے گرَیٹ کرامپ کارین باؤر کا یہ انٹرویو ایک ایسے وقت پر نشر کیا گیا جب ڈی ڈبلیو نے اپنے صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کی بحفاظت افغانستان سے نکل کر پاکستان پہنچنے کی تصدیق کی۔

Deutschland | Wunstorf | Rückkehr der Bundeswehr aus Afghanistan
افغانستان سے انخلا کے بعد واپس اپنے ملک پہنچنے والے جرمن فوجتصویر: Fabian Bimmer/REUTERS

اقوام متحدہ کا انتباہ

جمعرات نو ستمبر کو کابل ایئر پورٹ سے ایک پرواز کے ذریعے 200 غیر ملکیوں کو خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچایا گیا تھا۔ یہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کابل ایئر پورٹ سے سب سے بڑی تعداد میں بیرون ملک روانگی تھی۔ اس پرواز سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ کابل تک اور وہاں سے باقاعدہ پروازوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔

’پی آئی اے دوبارہ کابل جانے والی پہلی غیر ملکی ایئر لائن‘

جرمنی سمیت کئی مغربی ممالک نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ تسلیم کرنے کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ ان ملکوں نے واضح کیا ہے کہ طالبان حکومت کو اسی وقت تسلیم کیا جائے گا، جب وہ انسانی حقوق کے احترام، خواتین سے بہتر سلوک اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے پر کاربند ہوں گے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ نے کابل میں طالبان حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اس کے لیے ترقیاتی امداد کا سلسلہ روکا بھی جا سکتا ہے اور یہ افغان معیشت کا دیوالیہ نکل جانے کے مترادف ہو گا۔

افغانستان پر نگاہ

نائن الیون دہشت گردانہ حملوں کی بیسویں برسی کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جرمن وزیر دفاع آنے گرَیٹ کرامپ کارین باؤر نے کہا کہ اسلام کے نام پر جہادی عمل انسانیت کے نام پر ایک دھبہ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کابل میں طالبان کی حکومت کی نگرانی ضروری ہے تا کہ دیکھا جا سکے کہ افغان سرزمین سے بین الاقوامی دہشت گردی کی ازسرِنو افزائش تو شروع نہیں ہو گئی۔

Afghanistan Kabul | PK der Taliban: Sprecher Zabihullah Mujahid: Mullah Mohammad Hasan Akhundzada soll Taliban leiten
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عبوری حکومت کا اعلان سات ستمبر کو کیا تھاتصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

انسداد دہشت گردی کے امور کے ماہر پیٹر نوئے مان کا کہنا ہے کہ طالبان کی نئی عبوری حکومت کی تشکیل پر عالمی خدشات میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس میں کئی نام ایسے ہیں جو امریکا کو دہشت گردی کی وجہ سے مطلوب ہیں۔

مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے افغان طالبان کی ہوائی فائرنگ

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس عبوری حکومت میں شامل زیادہ افراد کا تعلق افغانستان کی پشتون آبادی سے ہے۔ نوئے مان کے مطابق اس حکومت میں حقانی نیٹ ورک بھی شامل ہے، جو القاعدہ سے بھی وابستہ رہا ہے اور افغانستان کے نئے وزیر داخلہ کا تعلق بھی اسی حقانی نیٹ ورک سے ہے۔

پیٹر نوئے مان جرمنی کی قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی طرف سے اگلے عام الیکشن کے نتیجے میں چانسلر کے عہدے کے لیے امیدوار آرمین لاشیٹ کے مشیر بھی ہیں۔

نِک مارٹن (ع ح / م م)