1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان مخالف افغان لشکر منظم ہوتے ہوئے

20 جولائی 2012

افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف امن و سلامتی کو یقیینی بنانے کے لیے مختلف علاقوں میں مقامی افراد منظم ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/15bpA
تصویر: DW

حالیہ دنوں میں افغانستان کے صوبے غزنی اور پھر لغمان میں مقامی لشکر تشکیل دیے گئے ہیں۔ سینکڑوں مسلح افراد پر مشتمل ان لشکروں نے اپنے اپنے علاقوں کو طالبان سے محفوظ رکھنے کے اعلانات کیے۔ سلامتی کے امور سے متعلق افغان ماہرین کی ان لشکروں کی بابت رائے منقسم ہے۔ کچھ کے خیال میں مقامی طور پر با اثر افراد 2014ء کے بعد کی صورتحال کے لیے ابھی سے اپنے اپنے علاقوں میں کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ دیگر کے خیال میں طالبان مخالف مقامی لشکروں کی تشکیل دراصل کابل حکومت کی ایک جامع حکمت عملی کا حصہ ہے۔

لغمان میں رواں ہفتے سیکنڑوں مسلح افراد نے مرکزی بازار میں ایک ریلی نکالی اور طالبان کے خلاف نعرے لگائے۔ اس صوبے میں رواں ماہ خواتین کے امور کی نگراں حنیفہ صافی ایک بم دھماکے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ طالبان مخالف ریلی کے شرکاء کے بقول وہ طالبان کی دہشت گردی سے تنگ آ چکے ہیں اور اب مزید اُن کے ہاتھوں اپنے لوگوں کا استحصال ہونے نہیں دیں گے۔ لغمان کی صوبائی حکومت کے ترجمان سرحدی زواک کے بقول الیشنگ ضلع کے اس مقامی لشکر کی طرز پر صوبے بھر میں لشکر ترتیب دیے جا رہے ہیں۔

لغمان سے قبل غزنی صوبے میں ایک مقامی لشکر نے ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کی۔ اندڑ ضلع کے اس لشکر کے بیشتر ارکان بھی لغمان صوبے کی مانند پشتون تھے اور انہوں نے عسکریت پسندوں کی طرف سے بند کرائے گئے اسکول و بازار کھلوائے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پاکستان میں موجود طالبان ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ عسکریت پسندوں کو بہت سے صوبوں میں کنٹرول حاصل تھا مگر اب ہلمند، قندوز، قندھار، زابل اور غزنی کا کنٹرول ان سے چھن گیا ہے۔ اے ایف پی سے بات کرنے والے طالب رہنما کے مطابق درحقیقت جنگی امور سے وابستہ طالبان کی سرگرمیوں سے عوام میں نفرت بڑھی ہے اور اس کے نتیجے میں مختلف علاقوں پر اُن کے کنٹرول میں کمی بھی آئی ہے۔ واضح رہے کہ عوام طالبان کی جانب سے تعلیمی ادارے تباہ کیے جانے سے بھی خوش نہیں ہیں۔

افغانستان پر 1996ء تا 2001ء حکومت کرنے والے طالبان کابل کی موجودہ حکومت کو مغرب نواز کہہ کر ہدف تنقید بناتے ہیں اور اُس کے خلاف مسلح بغاوت جاری رکھے ہوئے ہیں، جسے وہ ’جہاد‘ کا نام دیتے ہیں۔ افغان سکیورٹی فورسز کو قریب ایک لاکھ تیس ہزار غیر ملکی فوجیوں کی معاونت حاصل ہے جن کی اکثریت 2014ء کے بعد افغانستان چھوڑ دے گی جبکہ باقی ماندہ فوجی افغان فورسز کی تربیتی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔

سلامتی سے متعلق امور کے افغان ماہر وحید مژدہ کے بقول مغربی دفاعی افواج کے انخلاء کا وقت قریب آنے کے ساتھ ساتھ طالبان بھی اپنا دائرہ کار بڑھانے کی کوششوں میں ہیں۔ کابل یونیورسٹی کے افغانستان سینٹر سے وابستہ وحید مژدہ نے مزید کہا کہ طالبان جتنا مختلف علاقوں میں پھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں اتنا ہی ان کا کنٹرول کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان مخالف مقامی لشکروں کی بہتر انداز میں نگرانی نہ کی گئی تو یہ بحران کے حل کے بجائے ایک نئے بحران کا سبب بن سکتے ہیں۔

(sks/ aa (AFP