1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

طالبان مطلوبہ افراد کی گھر گھر تلاشی لے رہے ہیں، اقوام متحدہ

20 اگست 2021

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ طالبان نے نیٹو فورسز یا سابقہ افغان حکومت کے لیے کام کرنے والے افراد کی تلاش تیز کر دی ہے۔ حالانکہ پہلے طالبان نے سب کو معاف کرنے اور انتقام نہ لینے کی بات کہی تھی۔

https://p.dw.com/p/3zCQo
Afghanistan | Taliban Kämpfer in Kabul
تصویر: Rahmat Gul/AP/picture alliance

خطرات کے اندازے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں جو افراد امریکا یا نیٹو کے لیے کام کرتے تھے، طالبان نے ان کی تلاشی مہم تیز کر دی ہے اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے ایسے افراد کو گھر گھر جا کر تلاش کیا جا رہا ہے اور نہ ملنے پر ان کے اہل خانہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔

کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا تھا اور یقین دہانی کرائی تھی کہ کسی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ لیکن اب وقت کے ساتھ اس بات کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں کہ شاید طالبان میں پہلے کے مقابلے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔

 اقوام متحدہ کو انٹیلیجنس سروس مہیا کرنے والے ناروے کے ایک ادارے 'سینٹر فار گلوبل انالسس‘ کی تیارکردہ ایک خفیہ رپورٹ میڈیا اداروں کے ہاتھ لگی ہے جس میں ادارے نے بیرونی حکومت کے مددگاروں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے متنبہ کیا ہے۔

رپورٹ میں کیا ہے؟

اس خفیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی نظر میں جو مطلوبہ افراد ہیں اور جنہیں وہ گرفتار کر کے سزائیں دینا چاہتے ہیں اس سے متعلق ان کے پاس ایک ترجیحی لسٹ موجود ہے۔ وہ ایسے افراد کو گھر گھر جا کر تلاش کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے آپ کو حوالے نہیں کیا تو پھر ان کے بدلے ان کے اہل خانہ کو گرفتار یا قتل کر دیا جائے گا۔

جو افغان کابل یا پھر جلال آباد کے ایئر پورٹ کی جانب جا رہے ہوتے ہیں، ان کی بھی کافی تلاشی لی جا رہی کہ کہیں ان کے مطوبہ افراد فرار ہونے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہیں۔

Afghanistan | Taliban Kämpfer in Kabul
تصویر: Rahmat Gul/AP/picture alliance

ناروے کی جس تنظیم نے یہ رپورٹ تیار کی ہے اس کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر کرسٹیئن نیلیمین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ''وہ ان لوگوں کے خاندانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو اپنے آپ کو حوالے کرنے سے انکار کرتے ہیں، اور ان کے اہل خانہ پر شرعی قوانین کے مطابق مقدمہ چلا رہے ہیں اور انہیں سزائیں دے رہے ہیں۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''ہمیں توقع ہے کہ دونوں طرح کے لوگوں کے ساتھ، جو پہلے نیٹو/امریکی افواج اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ کام کر رہے تھے اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ تشدد کیا جائے گا اور وہ سزائے موت کا بھی سامنا کریں گے۔''

 کرسٹیئن نیلیمین کے مطابق، ''اس سے مغربی ممالک کی انٹیلیجنس سروسز، ان کے نیٹ ورکس، طریقہ کار اور طالبان، داعش اور دیگر دہشت گردانہ خطرات کا مقابلہ کرنے کی مغرب کی صلاحیت مزید خطرے میں پڑ سکتی ہے۔''

طالبان مخالف مظاہرے

اطلاعات کے مطابق افغانستان میں طالبان کے خلاف جو مظاہرے شروع ہوئے تھے وہ اب کئی دیگر شہروں تک پھیل چکے ہیں۔ جمعرات کو کابل میں مظاہرین نے قومی پرچم لہرایا تاہم اسد آباد کے علاقے میں بعض مظاہرین کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاع ہے۔

اطلاعات کے مطابق افغان یوم آزادی منانے کے لیے اپنے قومی پرچم کے ساتھ باہر نکلے تھے جسے روکنے کے لیے طالبان نے فائرنگ کی جس کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی اور دو افراد ہلاک ہو گئے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ہلاکتیں گولی لگنے سے ہوئیں یا پھر بھگدڑ مچنے سے ہوئیں۔ 

جلال آباد میں بھی طالبان نے ان افراد پر فائرنگ کی جو قومی پرچم کے ساتھ یوم آزادی کا جشن منانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس فائرنگ میں ایک نوجوان لڑکا اور ایک دیگر شخص زخمی ہو گئے۔

Afghanistan | Taliban Kämpfer in Kabul
تصویر: Rahmat Gul/AP/picture alliance

طالبان سے جی سیون ممالک کی اپیل

جی سیون ممالک نے ایک بار پھر سے طالبان پر اس بات کے لیے زور دیا ہے کہ وہ ہر اس شخص کو جو افغانستان چھوڑنا چاہتا ہے اسے نکلنے کا

 محفوظ راستہ فراہم کریں۔ اس دوران امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے اپنے شہریوں کو افغانستان سے نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔

نیٹو کے ایک سینیئر اہلکار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ جب سے طالبان نے کابل پر قبضہ کیا ہے اس وقت سے اٹھارہ ہزار افراد کا کابل ایئر پورٹ سے انخلا کیا جا چکا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ افغان چھوڑنے کے متمنی افراد کے کابل ایئر پورٹ پر پہنچنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور جو بھیڑ جمع ہونی شروع ہوئی وہ ابھی کم نہیں ہوئی ہے۔

میرکل کے جانشین کا طالبان سے بات کرنے پر زور

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی ایک ساتھی سیاست دان ارمن لیشیٹ نے طالبان کے ساتھ براہ راست سفارتی تعلقات استوار کرنے کی بات کہی ہے۔ انہوں نے ایک مقامی جرمن اخبار سے بات چیت میں کہا، ''اچھی خارجہ پالیسی کا فن ایسی ریاستوں کے ساتھ کسی حل تک پہنچنے میں مضمر ہوتا ہے، جن کے اہداف اور انسانیت سے متعلق ان کی شبیہہ کو ہمارا معاشرہ بجا طور پر مسترد کر دیتا ہے۔''

آئندہ ماہ جرمن عام انتخابات کے بعد ارمن لیشیٹ میرکل کی جگہ لے سکیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان سے احترازکرنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا اس لیے براہ راست بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔     

چین اہم کردار ادا کر سکتا ہے

اس دوران طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے چین کے سرکاری میڈیا ادارے سے بات چیت میں کہا ہے کہ چین نے افغانستان میں امن اور مصالحت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ ملک کی تعمیر نو کرنے کے لیے چین کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ''چین ایک بہت بڑا ملک ہے جس کی ایک بڑی معیشت ہے اور وہ صلاحیتوں سے بھر پور ہے۔ میرے خیال میں وہ افغانستان کی تعمیر نو، بحالی اور تجدید میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔''

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے) 

طالبان کے افغانستان میں عاشورہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں