طالبان میں قیادت پر اختلافات اور کابل حکومت کا انتباہ
3 اگست 2015جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے تین جولائی بروز پیر بتایا کہ کابل حکومت نے طالبان کے منقسم دھڑوں سے مذاکرات کو خارج از امکان قرار دے دیا ہے۔
افغان صدر اشرف غنی کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ ’حکومت مخالف مسلح جنگجوؤں‘ کے ساتھ مذاکرات اسی صورت میں کرے گی اگر وہ اپنے گروہ کے لیے وہی نام استعمال کریں گے، جو ملا عمر کی موت سے قبل کیا جا رہا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا دور جمعہ 31 جولائی کو ہونا طے پایا تھا لیکن ملا عمر کی ہلاکت کی خبروں کے بعد اس عمل کو مؤخر کر دیا گیا تھا۔
اس گروہ نے اپنے رہنما ملا عمر کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے مُلا اختر منصور کو نیا سربراہ مقرر کیا تھا لیکن ملا عمر کے بیٹے یعقوب عمر نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یوں بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ 14 سالوں سے فعال ان طالبان باغیوں میں قیادت کے معاملے پر اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔
یعقوب عمر کے مطابق اسلامی اسکالرز اور قبائلی رہنماؤں کو طالبان کے نئے سربراہ کو باقاعدہ طور پر نامزد کرنا چاہیے۔ ملا عمر کے چھوٹے بھائی ملا عبدالمنان کے بقول ملا منصور کو اس گروہ میں وسیع پیمانے پر حمایت حاصل نہیں ہے۔
ملا عبدالمنان کی طرف سے جاری کردہ ایک آڈیو پیغام میں ملا اختر کا نام لیے بغیر کہا کہ ان کے خاندان نے ملا عمر کے بعد کسی کو اپنا رہنما تسلیم نہیں کیا ہے۔ ملا اختر گزشتہ چار برسوں سے افغان طالبان کے نائب سربراہ کے طور پر کام کر رہا تھا۔
افغان طالبان میں اس پھوٹ کے تناظر میں کابل حکومت نے خبردار کیا ہے کہ اس شورش زدہ ملک میں قیام امن کی خاطر طالبان کے مختلف منقسم گروہوں سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔
اشرف غنی کے دفتر سے جاری کردہ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت ملک میں کسی بھی متوازی سیاسی ڈھانچے کو قبول نہیں کرے گی۔ یاد رہے کہ افغان طالبان نے صوبائی سطحوں پر حکومتی نظام کے متوازی ایک انتظامی سسٹم بنا رکھا ہے۔