1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان نے افغانستان میں قائم ہزاروں بیوٹی پارلر بند کر دیے

25 جولائی 2023

افغانستان ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق بیوٹی پارلر پر پابندی سے ملک بھر میں تقریباً بارہ ہزار سیلونز میں کام کرنے والی مزید ساٹھ ہزار افغان خواتین آمدنی سے محروم ہو جائیں گی۔

https://p.dw.com/p/4UMXQ
Schönheitssalons in Afghanistan verboten
بیوٹی پارلرز پر پابندی کا باضابطہ نفاز منگل پچیس جولائی سے ہوا تصویر: ALI KHARA/REUTERS

افغانستان میں حکمران طالبان نے منگل پچیس جولائی سے ملک بھر میں قائم ہزاروں بیوٹی پارلرز مستقل طور پر بند کر دیے ہیں۔ اس کاروبارکی بندش سے نہ صرف افغان خواتین کو دستیاب آمدنی کے چند محدود ذرائع میں سے ایک ذریعہ ٹھپ ہو گیا بلکہ اس رجعت پسند معاشرے کی خواتین باہمی سماجی میل جول کی ایک پسندیدہ جگہ سے بھی محروم ہو گئیں۔

بیوٹی سیلونز کی بندش کا حکم نامہ

اگست 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان کی حکومت نے لڑکیوں اور خواتین کو ہائی اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا تھا۔  ان پر پارکوں، تفریحی میلوں اور کسرت گاہوں  میں جانے پر بھی پابندی لگا دی  اور انہیں عوامی مقامات پر پردہ کرنے کا حکم دیا۔

Schönheitssalons in Afghanistan verboten
بیوٹی پارلر بند ہونے سے ساٹھ ہزار سے ذائد خواتین بے روز گار ہو جائیں گیتصویر: ALI KHARA/REUTERS

لیکن طالبان کی جانب سے گزشتہ ماہ جاری کردہ ایک حکم نے ملک بھر میں خواتین کے ذریعے چلنے والے ہزاروں بیوٹی سیلون بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کابل میں بیوٹی سیلون کی ایک گاہک بہارا نے کہا،''ہم یہاں ایک ساتھ اپنے مستقبل کے بارے میں بات کرنے کے لیے آتی تھیں۔ اب یہ حق بھی ہم سے چھین لیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا، "خواتین کو تفریحی مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہے، تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم لطف اندوز ہونے کے لیے کہاں جا سکتی ہیں؟ ہم ایک دوسرے سے ملنے کے لیے کہاں جمع ہو سکتی ہیں؟"

’افغان خواتین کہاں جائیں‘

طالبان سکیورٹی اہلکاروں نےگزشتہ ہفتے بیوٹی پارلر بند کیے جانے کے اپنے حکم کے خلاف احتجاج کرنے والی درجنوں خواتین کو منتشر کرنے کے لیے فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کے ذریعے ان پر پانی پھینکا۔

 منگل کے روز اس پابندی کے نافذالعمل ہونے سے قبل ہی کابل میں بہت سے سیلون پہلے ہی بند ہو چکے تھے، جبکہ دیگر آخری ممکنہ لمحات تک کھلے رہے۔ ایک سیلون مالک نے بتایا کہ اسے ایک خط پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا کاروبار بند کر رہی ہیں اور دکان کو چلانے کے لائسنس سے بھی دستبردار ہوں گی۔ اس خاتون نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ''ایک خوفناک منظر تھا- وہ فوجی گاڑیاں اور بندوقیں لے کر آئے تھے۔ اتنے اصرار اور دباؤ کے بعد ایک عورت کیا کر سکتی ہے؟"

نیکی کے فروغ اور برائیوں کی روک تھام کے لیے قائم طالبان کی وزارت نے جون میں بیوٹی پارلروں کی جبری بندش کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان میں بیوٹی پارلر مالکان کو ان کے پاس موجود آرائشی سامان کے اسٹاک کو استعمال کرنے کی اجازت دینے کے لیے رعایتی مدت  دی گئی تھی۔

Afghanistan | Frauen demonstrieren für ihre Rechte
طالبان سکیورٹی اہلکاروں نےگزشتہ ہفتے بیوٹی پارلر بند کیے جانے کے اپنے حکم کے خلاف احتجاج کرنے والی درجنوں خواتین کو بزور طاقت منتشر کر دیا تھاتصویر: AFP/Getty Images

'آرائش حسن یا اصراف‘

اس وزارت نے دعویٰ کیا کہ میک اپ  پر خرچ کی جانے والی رقم اصراف ہے اور یہ غریب خاندانوں کے لیے مشکلات کا باعث ہے اور سیلون میں خوبصورتی کے لیے کیے جانے والے بعض عمل غیر اسلامی بھی تھے۔

وزارت کے بیان میں کہا گیا کہ بہت زیادہ میک اپ خواتین کو نماز کے لیے صحیح وضو سے روکتا ہے جبکہ پلکیں بڑھانا اور بالوں کو آرائش بھی ممنوع ہے۔ اس ضمن میں اے ایف پی کی طرف سے دیکھے گئے حکم نامے کی ایک کاپی میں کہا گیا ہے کہ یہ ''سپریم لیڈرہیبت اللہ اخوند زادہ کی زبانی ہدایات پر مبنی ہے۔‘‘

ہزاروں خواتین بے روزگار

افغانستان ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق بیوٹی پارلر پر پابندی سے ملک بھر میں تقریباً 12,000 سیلونز میں کام کرنے والی مزید 60,000 افغان خواتین آمدنی سے محروم ہو جائیں گی۔

طالبان کی’عورت کشی‘ عالمی جرم قرار دی جائے، عالمی مبصر

افغانستان کےلیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ کی طرف سے گزشتہ ہفتے اس عالمی ادارے کی انسانی حقوق کونسل کو دی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک میں خواتین اور لڑکیوں کی حالتِ زار 'دنیا کی بدترین حالتوں میں سے ایک ہے۔‘

بینیٹ نے کہا، "خواتین اور لڑکیوں کے خلاف سنگین، منظم اور ادارہ جاتی امتیازی سلوک طالبان کے نظریے اور حکمرانی کا محور ہے، جو ان کے صنفی امتیاز کے لیے ذمہ دار ہونے کے خدشات کو بھی جنم دیتا ہے۔"

طالبان سے لڑنے والی افغان خواتین کا غیر یقینی مستقبل