طالبان کا امن مذاکرات معطل کرنے کا اعلان
27 اپریل 2009دیر زیریں میں فوجی آپریشن کو بہانہ بنا کر تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد حکومت سے مذاکرات معطل کر کے اپنے گاﺅں جا چکے ہیں جبکہ ان کے نمائندوں نے حکومت کے ساتھ بات چیت کا اختیار وفاق المدارس کے ایک 22رکنی وفد کو دے دیا ہے جو مولانا صوفی محمد کے ساتھ ملاقات کے لئے آج ہی سوات پہنچا تھا ۔
دیر زیریں میں فوجی آپریشن پر طالبان کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ یہ کارروائی مقامی آبادی کی شکایت پر کی جا رہی ہے:” بہت عرصے سے لوگوں کی شکایت تھی کہ سوات سے عسکریت پسند ان کے علاقے میں آتے ہیں اور وہاں پر چیک پوسٹیں بناتے ہیں اور لوگوں کو مارتے ہیں پولیس کے ساتھ بھی اس علاقے میں ان کی لڑائی ہوئی ہے جو انہوں نے اپنی پوسٹیں بنائی ہیں اور کچھ علاقے پر قبضہ بھی کیا ہے اس میں وہاں کے لوگوں کی شکایت تھی اور وہاں کے لوگوں کی ڈیمانڈ تھی کہ حکومت آئے اور ادھر ان لوگوں کو نکالنے میں مدد کرے۔“
اسلام آباد میں عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان نے بھی طالبان کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ان سے آئین پاکستان اور حکومت کے ساتھ معاہدے کا احترام کرتے ہوئے اس کے تحت ہتھیار پھینک کر مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری طرف صدر آصف علی زرداری نے غیر ملکی صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں واضح کیا ہے کہ پاکستان کو شدت پسندوں کے خلاف موثر کارروائی کے لئے مزید وسائل درکار ہیں:”ہمیں سول فورسز ، پہلے سے زیادہ تربیت یافتہ پولیس اور دفاعی لحاظ سے پہلے سے زیادہ مضبوط پولیس سٹیشن درکار ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں عوام کا مزید تعاون چاہئے ۔“
تجزیہ نگاروں کے خیال میں طالبان اور سرکاری دعووں سے قطع نظر اب بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مالاکنڈ کے علاقوں کی صورتحال بدستور تشویشناک ہے اور اب بھی عسکریت پسند صوبائی اور مرکزی حکومتوں اور فوجی قیادت کے درمیان مکمل ہم آہنگی کے فقدان ہی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پراپیگنڈے میں مصروف ہیں۔
امتیاز گل، اسلام آباد