طالبان کا ایک پرانا گڑھ اب امن کی راہ پر
26 جولائی 2011Chris Choi کے مطابق اس علاقے میں بھرپور ٹریفک میں بھاری جاموں میں ملبوس افراد کے ساتھ وہاں حاجی بابا کے مزار کی طرف جاتے لوگ اس علاقے میں امن کی پھیلتی ہوئی روشنی کی علامت ہیں۔ یہ علاقہ کسی دور میں طالبان عسکریت پسندوں کا مضبوط گڑھ اور ایک اہم سپلائی روٹ ہوا کرتا تھا۔
مختصر لباس پہنے بچے یہاں گلیوں میں کیچڑ میں اچھلتے کودتے اور یہاں کی نہروں میں ڈبکیاں لگاتے نظر آتے ہیں۔ یہاں موجود یہی مٹیالی نہریں یہاں کی زمینوں میں کام کرتے کسانوں کے لیے ہریالی کا واحد ذریعہ ہیں۔
ایک برس قبل اس علاقے پر طالبان کا کنڑول تھا اور تب یہاں ایسا کوئی منظر نظر آنا ناممکن تھا، تاہم یہاں امریکی فوج کی کارروائیوں اور طالبان کے پسپا ہوجانے کے بعد اب اس علاقے میں دوبارہ زندگی لوٹتی نظر آتی ہے۔
اس علاقے میں پھل فروخت کرنے والے 20 سالہ شفیع اللہ کے مطابق، ’پچھلے برس ہم گھروں سے آزادانہ باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ ہم اس طرح اپنی چیزیں فروخت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ مگر اب آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔ ہر طرف لوگ نظر آتے ہیں۔‘‘
اس ضلع میں موجود تقریباﹰ 70 دیہات اور یہاں کے تقریبا 70 ہزار افراد طالبان کی پرتشدد کارروائیوں کے خوف کے سائے میں اپنی زندگیاں بسر کرنے پر مجبور تھے۔ پھر پچھلے برس موسم گرما میں امریکی فوج نے ایک بھرپور کارروائی کر کے طالبان سے یہ علاقہ چھین لیا تھا۔
امریکی فوجی ان دنوں افغانستان کے مختلف علاقوں میں مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت دینے اور وہاں ترقی کے کاموں میں تیزی سے مصروف ہیں تاکہ ملکی سکیورٹی کی ذمہ داریاں جلد از جلد مقامی دستوں کو منتقل کی جا سکیں۔
گزشتہ روز کابل میں متعین نئے امریکی سفیر نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان کی سلامتی کی ذمہ داری افغان عوام کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گی۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: مقبول ملک