1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’طالبان کی نظریں اب کراچی پر‘

19 جنوری 2010

قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں سے بچنے کی خواہش، آرام اور سب سے بڑھ کر پیسہ۔ طالبان عسکریت پسندوں کی نظر میں ’بندرگاہی شہر کراچی ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔‘

https://p.dw.com/p/Lb5p
تصویر: AP/Montage DW

طالبان کے متعدد رہنما مسلسل کہتے رہے ہیں کہ وہ کراچی کے امن کو متاثر کرنے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتے۔

Flash-Galerie Pakistan
جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف پاکستانی فوج کے آپریشن کے نتیجے میں عام شہری نقل مکانی پر مجبور ہوگئےتصویر: AP

مگر طالبان عسکریت پسندوں کا اس شہر کی طرف رُخ کرنا کراچی کے شہریوں کیلئے خوف و خطرے کی ایک علامت ہے۔کراچی میں سرگرم سیاسی جماعتیں پچھلے کئی برسوں سے اسی بات پر بحث کررہی ہیں کہ کیا طالبان کراچی میں ہیں؟ اور اگر وہ ہیں تو اس کا مطلب کراچی کی زندگی پر، اس شہر کی ثقافت پر، اور سب سے بڑھ کر یہاں کے امن و امان کیلئے کیا ہوگا؟

کراچی شہر کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ طالبان کی اس شہر میں موجودگی کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ عسکریت پسند اپنے اصل ٹھکانوں سے ہزاروں میل دور بھی اپنا اثر و رسوخ قائم رکھ سکتے ہیں۔ یہ شہر اس اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ امریکی افواج کیلئے یہیں سے رسد بھی آتی ہے۔ اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ طالبان یہاں قبضہ تو نہیں کرسکتے، لیکن وہ یہاں کا امن خراب ضرور کر سکتے ہیں۔

Flash-Galerie Pakistan: Plakate von bei Selbstmordanschlag getötete Polizisten
طالبان کے حملوں میں مارے جانے والے پولیس افسران کی تصاویرتصویر: AP

یہ وہ شہر ہے، جہاں لڑکے لڑکیاں مغربی لباس میں عیش و آرام کی زندگی گزارتے ہیں۔کھلے عام ہالی وُڈ فلموں کو دیکھا اور ان کی ستائش کی جاتی ہے۔ مگر پھر یہ وہ بھی جگہ ہے، جہاں واشنگٹن پوسٹ کے نامہ نگار ڈینیئل پرل کو قتل کیا گیا۔ یہیں سے مبینہ طور پر ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی بھی ہوئی۔

طالبان کے متعدد نمائندے یہ کہ چکے ہیں کہ عسکریت پسندوں کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ آرام انہیں کراچی میں مل سکتا ہے۔ ساحلِ سمندر پر ٹہلتے ہوئے ایک طالب نے مجھ سے کہا کہ کراچی میں ان کے کئی اراکین موجود ہیں۔ جب میں نے اس سے کراچی کے انتخاب کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو اس نے فوراً کہا:’’کیونکہ ہمارے لئے یہاں پناہ لینا آسان ہوتا ہے۔‘‘

کراچی کے گردو نواح کی علاقے سہراب گوٹھ میں کئی محلّے ایسے ہیں جہاں اب صرف محسود قبائل کے ہی افراد ملتے ہیں۔ میری وہاں موجودگی ان کیلئے اتنی ہی باعثِ حیرت تھی، جتنی باعثِ خوف میرے لئے ان کی موجودگی۔ میں وہاں اجنبی محسوس کر رہا تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ میری اپنی رہائش گاہ وہاں سے زیادہ دور نہیں۔ محسود قبائل کے ان افراد کیلئے یہ جگہ اپنے گھر جیسی ہی ہے۔

پولیس کے اعلیٰ افسران کا کہنا ہے کہ شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم کا تعلق کراچی میں طالبان کی موجودگی سے ہے۔’’اب کراچی سے ہی طالبان کیلئے پیسہ جمع کیا جاتا ہے، ضروری نہیں کہ جس جس طریقے سے یہ پیسہ اکھٹا کیاجاتا ہے وہ سارے طریقے قانونی بھی ہوں۔‘‘ پولیس کے مطابق بینک ڈکیتی اور چوریاں طالبان کو بہت آسانی سے خاصہ اچھا پیسہ فراہم کر رہی ہیں۔

BdT Explosion Pakistan
کراچی میں اسی ماہ ہونے والے ایک حملے کے بعد کا منظرتصویر: AP

انسدادِ دہشت گردی کے محکمہ خاص کے اعلیٰ افسر راجا عمر کا کہنا ہے کہ ریتی بجری کت تجارت کرنے والوں میں زیادہ تر افراد طالبان کی مالی معاونت کرتے ہیں۔’’وہ اس پیسے کو خوشی خوشی دیتے ہیں۔ ایک بڑی رقم شدت پسندوں تک پہنچتی ہے۔‘‘

صوبہ سندھ میں انٹیلی جنس بیورو کے اعلیٰ عہدے دار اے ڈی خواجہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ کراچی میں ہونے والی ڈکیتیوں میں سے ایک بڑی تعداد میں چھینی ہوئی رقم طالبان تک پہنچتی ہے۔ پولیس ریکارڈ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گزشتہ سال کراچی میں تقریباً دس لاکھ امریکی ڈالر کی رقم شہر میں ہونے والی 92 ڈکیتی کی وارداتوں میں چھینی گئی۔

کراچی میں کتنے طالبان؟

اس بات پر سبھی کا اتفاق ہے کہ کہ طالبان کراچی میں آچکے ہیں مگر ان کی تعداد کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔

متحدہ قومی مووٴمنٹ گزشتہ کئی برسوں سے یہ شور مچارہی ہے کہ کراچی شدت پسندوں کے نشانے پر ہے۔ اس جماعت کا کہنا ہے کہ ’’طالبان بڑی تعداد میں کراچی کا رخ کر رہے ہیں اور یہ کہ ان کی موجودگی شہر کے امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔‘‘

’ایم کیو ایم‘ سے منسلک وسیم آفتاب کا کہنا ہے کہ طالبان کیلئے کراچی میں آنا پیسہ بنانے کا ایک موقع ہی نہیں بلکہ ایک سیاسی خطرہ بھی ہے کیونکہ ’یہاں کا طرزِ رہائش ان کے خیال سے غیر شرعی ہے۔‘ اسی لئے شہر کے قرب و جوار میں بسنے والی پختون آبادیاں خاص طور پر متحدہ قومی مووٴمنٹ کیلئے پریشانی کا باعث ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی رہنما امین خٹک البتہ اس بات سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان کی موجودگی اور ’طالبانائزیشن‘ میں بہت فرق ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’شہر کے پختون طالبان کے سامنے ایک ثقافتی دیوار ہمیشہ رہینگے، اس لئے کہ وہ پختون روایات کے مطابق کٹر عقائد نہیں رکھتے۔ وہ ناچ گانے کو صحیح مانتے ہیں اور ان کے علاقوں سے نائی کی دکانیں ختم بھی نہیں ہوئی ہیں۔‘‘

عام شہریوں کیلئے محض یہ خیال کہ طالبان کراچی میں پائے جاتے ہیں، دہشت پھیلانے کیلئے کافی ہے۔ سبھی اس بات سے خائف ہیں کہ کہیں طالبان کراچی میں نہ آجائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو شاید ان کے پاس کوئی اور راستہ نہ ہو کہ وہ اپنے باہمی اختلافات بھلا کر طالبان کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں۔

مگر اختلافات بھی کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ ان کو بھلانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی

ادارت: گوہر نذیر گیلانی، بون