طالبان کے نمائندوں سے خلیل زاد کے ’مذاکرات‘
15 مارچ 2009اطلاعات کے مطابق سابق امریکی سفیر اور بش انتظامیہ میں بغداد میں امریکہ کے سفیر کی حیثیت سے متعین زلمے خلیل زاد کی یہ ملاقاتیں باراک اوباما کی حکومت کے مینڈیٹ کے تحت عمل میں نہیں لائی جا رہی ہیں۔
جرمن اخبار ٹاز کے مطابق افغانستان میں پیدا ہونے اور امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے خلیل زاد نےغالباً ملا عمر کے ترجمانوں سے بھی براہ راست ملاقات کی ہے۔
ذرائع کے مطابق خلیل زاد نے سینکڑوں طالبان اور دیگر مسلح گروپوں کے نمائندوں کو اپنے زاتی خرچ پر دبئی آنے کی دعوت دی ۔ ان ملاقاتوں کے سلسلے سے قبل زلمے خلیل زاد نے ایک مختصر دورے پر افغانستان گئے جہاں انھوں نے جمعے کے روز صحافیوں سے بات چیت کی۔
مختلف حلقوں میں اس قسم کی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ زلمے خلیل زاد غالباٍ افغانستان کے انتخابات میں خود کو صدر کے عہدے کے لئے نامزد کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
2009 میں افغانستان کی صورتحال مزید خراب ہوگی: بان کی مون
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سال رواں یعنی2009 میں افغانستان میں سلامتی کی صورتحال مزید خراب ہوگی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹیری جنرل بان کی مون کی جانب سے سلامتی کونسل کے سامنے پیش کی جانے والی ایک رپوٹ میں اس امر کی طرف نشاندہی کی گئی ہے کہ سال رواں کے دوران افغانستان کو مزید مشکلات کا سامنا ہوگا۔ تاہم بان کی مون کی جانب سے پیش کردہ اس دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان میں انتخابات کے انعقاد کے موقع پر بین الاقوامی فوج کی تعداد میں اضافے سے امن کی صورتحال پر قابو رکھنے میں مدد ملے گی۔ امید کی جا رہی ہے کہ ماہ رواں یعنی مارچ کے اندر اندر ہی سلامتی کونسل افغانستان کے UN مشن مینڈیٹ میں مزید توسیع کا اعلان کر دی گی۔
بان کی مون نے اپنی رپوٹ میں اس مینڈیٹ میں ایک سال کی توسیع کا مشورہ دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے ابتک کی صورتحال کے تناظر میں موجودہ حالات سب سے زیادہ تشویش ناک نظر آ رہے ہیں۔ اس وقت تشدد اپنے عروج پر نظر آ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی رپوٹ میں اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی امدادی سرگرمیاں افغان عوام کی توقعات پوری نہیں کر سکی ہیں۔ عالمی اقتصادی بحران کا بھی ایک بڑا عمل دخل ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں نا تو قانون کی بالا دستی ہے نا ہی موثر سیاسی اور قانونی ادارے پائے جاتے ہیں۔ عوام کے ساتھ ہونے والے سلوک کو سنجیدگی سے نہیں دیکھا جا رہا۔ افغانستان میں گزشتہ برس شہریوں کی ہلاکتوں میں 40 فیصد کا اضافہ ہوا۔ بان کی مون نے اپنی رپوٹ میں کہا ہے کہ ان چالیس فیصد ہلاکتوں میں سے 39 فیصد کے زمہ دار بین الاقوامی اور افغان فوجی ہیں۔ امریکہ اس ماہ کے اواخر تک افغانستان سے متعلق اپنی نئی حکمت عملی منظر عام پر لائے گا۔
طالبان کے بارے میں جرمنی کے موقف میں ممکنہ لچک کی نشاندہی:
ادھر وفاقی جرمن وزیر داخلہ والف گانگ شوئبلے نے روزنامہ General-Anzieger کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ سخت گیر موقف رکھنے والے اور اعتدال پسند طالبان کے مابین فرق کرنا بہت ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک دانا سیاسی عمل ہوگا۔ جرمن وزیر داخلہ کے مطابق اسلامی دنیا سے تعلق رکھنے والے چند دانشوروں نے اس امر کی طرف نشان دہی کی ہے کہ مغربی دنیا طالبان کے حامی اعتدال پسند اور انتہا پسند عناصر، دونوں کو ایک ہی نگاہ سے دیکھ کر بہت بڑی غلطی کر رہی ہے۔ ایسے افراد جو محض افغانستان میں غیر ملکی مداخلت اور غیر ملکی فوجی حملوں کے خلاف ہیں انہیں القائدہ اور طالبان کے ساتھ نتھی کر دینا نہایت غیر مناسب طرز عمل ہے۔ جرمنی کی حکمران پارٹی کرسچن ڈیمو کریٹک یونین سی ڈی یوؤ سے تعلق رکھنے والے وفاقی جرمن وزیر داخلہ والف گانگ شوئبلے کی طالبان کے معتدل سرگرموں کے ساتھ مذاکرات کے خیال کی حمایت کے سبب انکی اپنی جماعت کی طرف سے کڑی تنقید اور مخالفت کا سامنا ہے۔ جبکہ امریکی صدر باراک اوباما نے حال ہی میں یہ انکشاف کفا تھا کہ واشنگٹن کی نئی حکومت اعتدال پسند طالبان عناصر کے ساتھ بات چیت کے لئے تیار ہے۔