’طیارے کی تباہی، روسی اور ترک موقف دونوں درست نہیں‘
30 نومبر 2015بیلجیم کی لوئوین یونیورسٹی سے وابستہ ماہرین فلکیات ٹوم فان ڈورسلائرے اور گیوانی لاپینٹا کا کہنا ہے کہ طیارہ مارے گرائے جانے متعلق ترک اور روسی دعوے دونوں درست نہیں۔ نومبر کی 24 تاریخ کو پیش آنے والے اس واقعے میں ترک لڑاکا طیاروں نے شامی سرحد کے قریب ایک روسی بمبار طیارے کو مار گرایا تھا۔ ترک موقف ہے کہ اس روسی طیارے نے ترک حدود کی خلاف ورزی کی، جب کہ روس کہتا ہے کہ یہ طیارہ تمام وقت شامی سرحد کے اندر تھا۔
ترک دعوے پر سوال:
ترک دعوے کے مطابق، یہ روسی طیارہ ترک سرحد کے دو کلومیٹر اندر 17 سیکنڈ تک اڑتا رہا اور بار بار تنبیہ پر بھی جب اس طیارے نے سرحدی حدود کی خلاف ورزی ترک نہ کی، تو اسے ترک لڑاکا طیاروں نے نشانہ بنایا۔ روس اس ترک دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ترک طیارے پہلے ہی سے تاک میں تھے اور شامی سرحد کے اندر اڑنے والے اس طیارے کو میزائل کی مدد سے نشانہ بنایا گیا۔
ایک بلاگ میں ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جس جگہ پر طیارے کا ملبہ ملا ہے، اس اعتبار سے ترک دعویٰ ہر گز درست نہیں ہو سکتا۔ ان محققین کے تخمینہ جات کے مطابق ترک دعوے میں جس سرحدی حدود کی خلاف ورزی کا کہا گیا ہے، 980 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑنے والے طیارے کو وہ دو کلومیٹر کا علاقہ عبورکرنے میں سات سیکنڈ درکار ہو گے، نہ کے 17 سیکنڈ۔
سائنس دانوں کے مطابق ترک دعویٰ ہے کہ روسی طیارے کو پانچ منٹ میں دس مرتبہ وارننگ دی گئی، مگر 980کلومیٹر کی رفتار سے سفر کرنے والے طیارے نے اس دوران 80 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ ترکی کو پہلے ہی سے معلوم تھا کہ یہ طیارہ ترک سرحد کی خلاف ورزی کرنے والا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ روسی طیارے کو دی گئی وارننگز ایک خیال کی بنا پر ہو سکتی ہیں، مگر حقائق سے ان کا کوئی تعلق نہیں، کیوں کہ روسی طیارہ تو آخری لمحے میں بھی اپنا راستہ تبدیل کر کے ترک علاقے میں داخل ہونے سے باز رہ سکتا تھا۔
روسی دعوے پر سوال:
روسی حکومت کی جانب سے جاری کردہ نقشے کے مطابق اس کے طیارے نے ترک سرحد کے قریب 90 درجے کا موڑ اس وقت کاٹا، جب میزائل اس سے ٹکرایا، طیارہ کسی بھی مقام پر ترک فضائی حدود میں داخل نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ وہ کریش بھی شامی علاقے میں ہوا۔
تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ میزائل جیسی کم کمیت کی شے کا طیارے سے ٹکرانا، اس کے راستے کی تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتا۔ کیوں کہ طیارے کی کمیت زیادہ ہوتی ہے اور ایک چھوٹا میزائل کسی طیارے سے ٹکرانا ایسا ہی ہے، جیسے کسی کار کا کسی ریل گاڑی سے ٹکرانا۔
کسی کی طرف داری نہیں:
ان دونوں محققین کا کہنا ہے کہ وہ ترک اور روسی دعووں کو سن کر پریشان تھے، اس لیے انہوں نے کسی ملک کی طرف داری کیے بغیر انتہائی سائنسی انداز میں اس واقعے اور ان دعووں کا جائزہ لیا۔
ان دونوں سائنس دانوں نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ وہ اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہنا چاہتے کہ دونوں ممالک میں سے کس کا دعویٰ زیادہ درست ہے۔ ان محققین کے مطابق بلاگ شائع ہونے کے بعد انہیں اس واقعے سے متعلق مزید معلومات ارسال کی گئی ہیں، تاہم وہ اس واقعے کے مزید جائزے کا منصوبہ نہیں رکھتے۔
ایوا وٹکے/عاطف توقیر
عابد حسین