عالمی جنگ کے پولستانی متاثرین سے معافی مانگتا ہوں، جرمن صدر
1 ستمبر 2019دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے کے حوالے سے پہلی تقریب آج اتوار کی صبح پولینڈ کے شہر 'ویلون‘ میں منعقد ہوئی۔ اس شہر پرجرمن نازی دستوں نے یکم ستمبر 1939ء کو سب سے پہلے بمباری کی تھی۔ اس موقع پر جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے خطاب کرتے ہوئے اس جنگ کے متاثرین سے معافی کی درخواست کی، '' ویلون پر حملہ ان تمام واقعات کا ایک طرح سے انتباہ تھا، جو اگلے چھ سالوں میں رونما ہونے تھے۔‘‘
شٹائن مائر نے مزید کہا، ''میں نازی جرمنوں کی جانب سے ویلون پر حملے کے متاثرین کے سامنے سر تسلیم خم ہوں۔ یہاں سے وہ تشدد اور تباہی شروع ہوئی تھی، جو اگلے چھ برسوں تک پولینڈ اور یورپ بھر میں پھیلی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،''جرمنی اُن تمام واقعات کی ذمہ داری قبول کرتا ہے، جو ہمیں تاریخ سے ورثے میں ملے ہیں۔ ہم یہ کبھی نہیں بھولیں گے۔‘‘
ویلون میں آج اتوار کی صبح دنیا بھر سے آئے ہوئے اور مقامی شہریوں نے بمباری میں ہلاک ہونے والے تقریباً دو ہزار افراد کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ ان میں اس بمباری میں بچ جانے والے افراد بھی شریک تھے۔
اس تقریب کے کچھ دیر بعد پولش وزیراعظم ماتیئوش موراویئسکی اور یورپی کمیشن کے نائب سربراہ فرنز ٹمرزمن نے بحیرہ بالٹک پر جزیرہ نما ویسٹر پلیٹ پر ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کی۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے پولش دستوں نے اپنی مزاحمت شروع کی تھی۔
لڑائی کے دوران پولینڈ کے کچھ علاقوں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اس دوران تقریباً اس ملک کی تقریباً بیس فیصد آبادی ختم ہو گئی تھی، جس میں اس ملک میں آباد تین ملین یہودی شہری بھی شامل تھے۔ اس کے بعد تقریباً چھ برسوں تک یعنی 1945ء تک نازی جرمن حکومت پولینڈ پر قابض رہی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے بعد پولینڈ ایک طرح سے کھنڈر بن چکا تھا۔ تاہم یہ ملک جلد ہی اس صورتحال سے نکل گیا اور 1989ء تک پولینڈ سابقہ سوویت یونین کے زیر اثر تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے کے اسی برس پورے ہونے کی مرکزی تقریب پولش دارلحکومت وارسا میں آج ہی منعقد ہو رہی ہے، جس میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی وزیر اعظم ایدوآر فیلیپ، بیلجیم کے وزیر اعظم اور یورپی کونسل کے نو منتخب صدر شارل مشیل کے ساتھ ساتھ کروشیا، چیک ریپبلک، لتھوانیا، سلوواکیہ، یوکرائن اور ہنگری کے رہنما بھی شرکت کریں گے۔
ع ا / ع ح