عالمی رہنماؤں کا منڈیلا کو خراج عقیدت
6 دسمبر 2013نوبل امن انعام یافتہ نیلسن منڈیلا پچانوے برس کی عمر میں جمعرات کو جوہانسبرگ میں واقع اپنے گھر پر انتقال کر گئے۔ ان کی موت نے نہ صرف جنوبی افریقہ بلکہ عالمی سطح پر سوگ اور رنج و غم کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ان کی موت پر عالمی رہنماؤں نے انتہائی دکھ کا اظہار کیا ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے منڈیلا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا، ’’جتنا کہ کسی انسان سے توقع کی جا سکتی ہے، منڈیلا نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ کامیابیاں حاصل کیں۔ وہ اب ہم میں نہیں رہے اور ہم ایک انتہائی اچھی، حوصلہ مند اور متاثر کن شخصیت سے محروم ہو گئے ہیں۔‘‘
یورپی یونین کے صدر ہیرمان فان رومپوئے نے اس افریقی رہنما کے انتقال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دور حاضر کی عظیم ترین سیاسی شخصیت تھے۔ یورپی کمیشن کے صدر یوزے مانوئل باروسو کے بقول، ’’نیلسن منڈیلا نے اپنے عوام، ملک، براعظم اور دنیا کی تاریخ بدل دی۔‘‘ باروسو نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں مزید لکھا، ’’میں اس وقت خود کو منڈیلا کے اہل خانہ اور جنوبی افریقی عوام کے ساتھ محسوس کر رہا ہوں۔‘‘
یورپی پارلیمنٹ کے اسپیکر مارٹن شُلس نے کہا، ’’آج جنوبی افریقہ اپنے والد سے محروم ہو گیا ہے، دنیا نے ایک ہیرو کھو دیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ منڈیلا ایک بہادر رہنما اور بہت سے لوگوں کے لیے ایک مثال تھے۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے منڈیلا کے انتقال پر اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں ایک عظیم روشنی بجھ گئی ہے۔ انہوں نے منڈیلا کو اپنے دور کا ہیرو قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ انہوں نے لوگوں کو جینے کی ایک نئی امید دی۔
اسی طرح سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش، اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، آئرش وزیر اعظم کینی، نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم جان کی اور کئی دیگر عالمی رہنماؤں نے بھی منڈیلا کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ایک بے مثال شخصیت قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے منڈیلا کو انصاف کی علامت اور ایک عظیم القامت شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا، ’’دنیا میں بہت سے لوگ انسانی عظمت کے لیے بے لوث محنت، آزادی اور برابری کی خاطر کی جانے والی منڈیلا کی کوششوں سے متاثر ہیں۔‘‘ بان کی مون کے بقول منڈیلا نے اپنی کوششوں سے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا۔ عالمی ادارے کے سربراہ کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں اس دنیا کو تمام افراد کی خاطر بہتر بنانے کے لیے منڈیلا کے عزم اور حکمت سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔‘‘