عالمی سائبر حملہ، معاملہ وائٹ ہاؤس تک
14 مئی 2017خبر رساں ادارے روئٹرز کو یہ بات اوباما انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے بتائی ہے۔ اس اہلکار کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حکم کے بعد ٹام بوزرٹ نے جمعے کی شب متعلقہ حکام کے ساتھ ایک ایمرجنسی میٹنگ منعقد کی جس میں عالمی سطح پر کیے جانے والے کمپیوٹر سائبر حملے ’رین سم ویئر‘ کے سبب پیدا ہونے والے خطرات پر غور وخوض کیا گیا۔ اس حملے کا نشانہ دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں عام لوگوں کے علاوہ بڑی بڑی کمپنیوں اور معروف اداروں کے کمپیوٹرز بھی بنے۔
روئٹرز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے اس سینیئر اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید بتایا کہ امریکی سکیورٹی کے ذمہ دار سینیئر حکام نے ہفتے کے روز وائٹ ہاؤس کے ’’سیچوئشن روم‘‘ میں ایک اور میٹنگ بھی کی جس میں ایف بھی آئی اور این ایس اے کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ یہ دونوں ادارے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ عالمی سطح پر کیے جانے والے اس سائبر حملے کے ذمہ داروں کا جلد سے جلد پتہ لگایا جائے۔
سائبر حملے کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے، یورو پول
یورپی یونین کی پولیس ایجنسی، یوروپول نے کہا ہے کہ جمعے کے روز ہونے والے سائبر حملے کے سبب دو لاکھ سے زائد ادارے اور افراد متاثر ہوئے ہیں۔ اس ایجنسی کی طرف سے آج اتوار 14 مئی کو خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کل پیر کے روز جب لوگ واپس اپنے کام پر پہنچیں گے تو یہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے اور متاثر ہونے والے لوگوں اور اداروں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
یورو پول کا کہنا تھا کہ اس حملے کی عالمی سطح پر رسائی بے مثال ہے۔ متاثر ہونے والوں میں بڑے بڑے نامور ادارے اور کمپنیاں شامل ہیں۔ اس سائبر حملے کو ایک بڑا خطرہ قرار دے دیا گیا ہے۔