عالمی سیاستدان اور درختوں سے محبت
جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے لے کر شام کے صدر بشار الاسد تک کتنے ہی عالمی رہنما ایسے ہیں جنہوں نے بعض لمحات کو یادگار بنانے کے لیے شجر کاری کی۔ ڈی ڈبلیو نے اس تصویر گیلری میں بعض ایسے ہی تاریخی موقعوں پر نظر ڈالی ہے۔
زمین کو ایک بار پھر عظیم بنائیے
سیاستدان عموماﹰ آپسی اختلافات کو دور کرنے کی علامت کے طور پر بھی درخت لگاتے ہیں۔ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ماحول میں تبدیلی سے ہونے والے منفی اثرات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو فرانسیسی صدر ایمانوئیل ماکروں ماحولیاتی تبدیلی کے سد باب کے لیے مزید کوششوں پر زور دیا۔ ٹرمپ کے ساتھ مل کر شجر کاری کرنے سے شاید صدر ماکروں کو باہمی اختلاف دور کرنے اور زمین کو سر سبز بنانے کی امید ہو چلی ہو۔
نیا آغاز
سن انیس سو پچاس سے بر سرپیکار رہنے والی شمالی اور جنوبی کوریائی ریاستوں کے سربراہان نے بھی جب ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو مل کر درخت لگانے کو خوش بختی کی علامت جانا۔ یہ جنگ کے خاتمے اور نئے آغاز کی علامت تھی۔
جیسا باپ ویسا بیٹا
کم جونگ اُن پہلے کوریائی رہنما نہیں جنہوں نے تعلقات استوار کرنے کے لیے شجر کاری کا سہارا لیا۔ اُن کے والد کم جونگ نے بھی ایک فوجی یونٹ کے دورے کے دوران ایک شمالی کوریائی سپاہی کے ساتھ درخت لگایا تھا۔
محبت کی جڑیں دور تک
اپنے سیاسی کیرئیر کے آغاز ہی سے جرمن چانسلر میرکل درخت لگاتی آئی ہیں۔ سن انیس پچانوے میں میکلن برگ کے قیام کی ایک ہزارویں سالگرہ پر میرکل نے اس وقت کی حکومت کی سب سے کم عمر وزیر کی حیثیت سے ایک ہزار درخت لگائے اور پھر درختوں سے اُن کی محبت ہمیشہ بر قرار رہی۔
مٹی کی زرخیزی میں حصہ داری
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ٹوکیو میں سن 2008 میں جی ایٹ سمٹ کے موقع پر بھی دیگر عالمی رہنماؤں کے ساتھ درخت لگائے تھے۔ اس موقع پر اُن کے ساتھ سابق امریکی صڈر جارج ڈبلیو بش اور فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی بھی موجود تھے۔
نئے باب کی شروعات
جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، اٹلی، جاپان اور امریکا نے یوکرائن میں فوجی مداخلت کرنے پر روس کو جی ایٹ تنظیم سے بے دخل کر دیا تھا۔ لیکن اسی سال روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے چین میں ایشیا پیسیفک اقتصادی سربراہی اجلاس میں پودا لگا کر دیگر ممالک کو مثبت پیغام دیا۔
شام میں جنگ اور بشار الاسد کی شجر کاری
سن 2013 میں جب شام میں جنگ شروع ہوئی تو شامی صدر بشار الاسد نے اُس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ عبدلعزیز السعود کے ساتھ مل کر بیروت میں ایک درخت لگایا۔ اس اقدام کا مقصد خطے میں تناؤ کو کم کرنا تھا۔
امن کا پیغام
سابق اسرائیلی صدر شمعون پیرس نے پوپ فرانسس کو اسرائیل کے دورے کی دعوت دی اور پوپ کے ساتھ زیتون کا درخت لگایا۔ زیتون کا درخت امن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔