عالمی طاقت بننے کے لئے بھارت کی خارجہ پالیسی 'ڈاکٹرین'
25 فروری 2010تجزیہ کاروں کے مطابق چونکہ اگلی دو دہائیوں میں طاقت کا مرکز ایشیا کی طرف منتقل ہونے والا ہے اس لئے بھارت اس موقع کو کسی بھی طرح ضائع نہیں کرنا چاہتا ہے۔ نئی 'ڈاکٹرین' میں کہا گیا ہے کہ بھارت کو اقتصادی طاقت بننے کے لئے تمام امکانات سے فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ چین کا مقابلہ کرنے اور ایک عالمی طاقت بننے کا یہی واحد راستہ ہے۔
ان نئے رہنما اصولوں میں پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار بنائے رکھنے پر خاص طور سے زور دیا گیا ہے۔ بھارت کے سابق ڈیفینس سکریٹری اور مؤقر تھنک ٹینک 'انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینالیسس' کے ڈائریکٹر جنرل این ایس سسودیا نے اس 'ڈاکٹرین' اکے حوالے سے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ”خطے میں استحکام ہی بھارت کی اقتصادی ترقی کی ضمانت ہے اس لئے پڑوسی ملکوں کے مسائل کو حل کرنا بھی بھارت کی ہی ذمہ داری ہے۔ حالانکہ بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے اور اس کے وسائل بھی کافی وسیع ہیں لیکن آج کے زمانے میں قوم پرستی ہی سب کچھ نہیں ہے۔ اگر ہمارے پڑوس میں کوئی چھوٹا ملک ہے تو اس کے مسائل بھی ہمارے لئے اتنے ہی اہم ہیں جتنے خود ہمارے اپنے مسائل۔ اس لئے بھارت کوچھوٹے موٹے جھگڑوں کو حقیقت پسندانہ انداز میں حل کرکے سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔"
انہوں نے مزید کہا، " کشیدگی اور جھگڑوں کو طول دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ حالانکہ بعض ممالک اپنے مقاصد کے حصول کے لئے غیرذمہ دارانہ رویہ اپنارہے ہیں اور ایسا کرکے وہ خود اپنی تباہی کو دعوت دے رہے ہیں، اس کے باوجود ان ملکوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ گو کہ اس میں وقت لگ سکتا ہے لیکن ایک عالمی طاقت بننے کے لئے بھارت کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔"
خیال رہے کہ بھارت نے چند دنوں قبل ہی اپنی نئی دفاعی پالیسی 'ڈاکٹرین' کو نافذ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے ان رہنما اصولوں پر بحث و مباحثہ جاری تھا۔ اس 'ڈاکٹرین' میں بھارت کو ہمیشہ مستعد رہنے اور فوج کو جدید ساز و سامان سے لیس کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے جب این ایس سسودیا سے پوچھا گیا کہ کیا ان دونوں اصولوں میں تضاد نہیں ہے؟ کیو نکہ ایک پالیسی میں جہاں خطے میں امن کی وکالت کی گئی ہے تو دوسری پالیسی میں پڑوسیوں کو خوفزدہ کیا جارہا توان کا جواب تھا " اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ نیشنل ڈیفنس ایک انشورنس کی طرح ہے ۔ جس طرح ہم کوئی انشورنس پالیسی لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اگلے روز ہی ہماری موت ہوجائے گی بلکہ مستقبل کے پیش نظر یہ انتظام کیا جاتا ہے اسی طرح یہ بھی ایک Deterrent کی طرح ہے“۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی دفاع کے لئے خرچ کرنا ضروری ہے البتہ اس میں جارحیت کا عنصر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا مقصد یہ ہو نا چاہیے کہ کوئی ہم پر حملہ کرنے کی جرآت تو کیا اس کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے اور اگر وہ ایسی حرکت کرتا ہے تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جاسکے“۔
اسی دورا ن نئی دہلی میں تین روزہ ایشیئن سیکورٹی کانفرنس میں 2030ء تک بھارت کو ایک عالمی طاقت بنانے کے لئے دنیا بھر کے ماہرین نے سیر حاصل بحث کی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سال 2030ء کے بعد بھارت کے پاس نوجوانوں اور تکینکی ماہرین کی تعداد دنیا کے دیگر ملکوں کی نسبت سب سے زیادہ ہوگی ۔ لہذا بھارت کے ایک عالمی طاقت بننے کے امکانات کافی روشن ہیں ۔ این ایس سسودیا نے کہا کہ بلا شبہ بھارت کا مستقبل تابناک ہے لیکن یہ بات بہت اہم ہوگی کہ بھارت ان مواقع کا کس طرح استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ” بھارت کو امداد باہمی کا اور حقیقت پسندانہ رویہ اپنانا ہوگا ۔ اسی سے خطے میں خوشحالی بڑھے گی اور غربت میں کمی آئے گی۔" انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم نے چھوٹے موٹے جھگڑوں اور تنازعات کو نظرانداز نہیں کیا اور اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ فتح تو ہمیں ہی نصیب ہوگی تو نتیجہ الٹ بھی ہوسکتا ہے“۔
رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی
ادارت : افسر اعوان