عالمی مالیاتی بحران اور یورپ میں بے روزگاری میں اضافہ
26 فروری 2009جرمنی کے شہر Rüsselsheim میں جنرل موٹرز کے ذیلی ادارے Opel کے کارخانے کے باہر جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائیر نے تقریباً 15 ہزار ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ حکومت اُنہیں تنہا نہیں چھوڑے گی۔ جرمنی کے دوسرے شہروں میں بھی ملازمین نے موٹر ساز ادارے اوپل کی فیکٹریوں کے باہر احتجاجی مظاہرے کئے۔ جرمنی کے علاوہ برطانیہ، آسٹریا، فرانس، ہنگری اور اسپین میں بھی جنرل موٹرز کے ذیلی کارخانوں کے باہر ملازمین نے احتجاج کیا۔
جرمنی میں تقریباً 25 ہزار افراد اوپل کمپنی کے لئے کام کرتے ہیں۔ امریکہ کے دو بڑے موٹر ساز ادارے جنرل موٹرز اور کرائیسلر پہلے ہی بڑے پیمانے پر اپنے ہاں ملازمتوں میں کٹوتی کے اعلان کرچکے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جنرل موٹرز کے فیصلے سے اوپل کمپنی بھی متاثر ہو گی۔
جرمنی میں بے روزگاری
عالمی اقتصادی بحران یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی کو بھی آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے جس کے باعث جرمنی میں بے روزگاری میں مسلسل اضافے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ روزگار کے وفاقی جرمن ادارےکے اعدادوشمار کے مطابق جرمنی میں بے روزگاری کی شرح 7.8 فیصد سے بڑھ کر 7.9 فیصد ہو چکی ہے۔ متعدد کمپنیاں مالی پریشانیوں کے باعث پہلے ہی کارکنوں کے کام کے اوقات میں کمی کا اعلان کر چکی ہیں۔ جرمن ادارہ برائے روزگار کے مطابق ملازمت کے دورانیے کی کمی سے اب تک دو لاکھ سے زائد ملازمین متاثر ہو چکے ہیں۔
اس ماہ عالمی بینک کے سربراہ Robert Zoellick نے جرمن چانسلر اینگلا میرکل سے گفتگو کے بعد کہا تھا’’ دنیا اقتصادی بحران سے معاشی بحران کی طرف جارہی ہے اور معاشی بحران ہمیں بےروزگاری کے بحران سے دوچار کر دے گا۔‘‘
اوپل کی طرح دیگر کمپنیاں بھی مالی پریشانیوں کے باعث اپنے اخراجات میں کٹوتیوں کے علاوہ ملازمتوں کے مواقع میں کمی کا اعلان کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ جمعرات کے روز کیمیکل مصنوعات تیار کرنے والے سب سے بڑے جرمن صنعتی گروپ BASF نے اعلان کیا کہ پیداوار کی طلب میں کمی کے باعث وہ بھی اپنے ملازمین کی تعداد کم کرنے سمیت اخراجات میں کمی کے لئے مختلف اقدامات پر غور کر رہا ہے۔