عبداللہ عبداللہ ووٹوں کی جانچ کے عمل سے پھر الگ ہو گئے
27 اگست 2014عبداللہ کے اعلان کے بعد دوسرے صدارتی امیدوار اشرف غنی نے بھی اس عمل سے اپنے مبصرین واپس بلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں اعلیٰ ترین امریکی فوجی کمانڈر کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے والے جوزف ڈنفورڈ نے کہا ہے کہ افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان بڑے حملے کر سکتے ہیں۔
افغان صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ کی جانب سے ایک مرتبہ پھر جانچ پڑتال کے عمل سے الگ ہو جانے کے اعلان کی وجہ سے یہ سوال پھر آن کھڑا ہوا ہے کہ افغانستان میں پہلی مرتبہ جمہوری طریقے سے انتقال اقتدار کا یہ عمل کس طرح مکمل ہو پائے گا۔ عبداللہ عبداللہ اس سے قبل بھی ووٹوں کی چھان بین کے طریقہ کار پر اعتراض کر چکے ہیں۔ بدھ کے روز عبداللہ عبداللہ کے ایک ترجمان نے اس عمل سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں متعدد ’قانونی تقاضے‘ پورے نہیں کیے جا رہے۔
منگل کے روز عبداللہ عبداللہ نے خبردار کیا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن نے یہ تقاضے پورے نہ کیے، تو وہ اس عمل سے الگ ہو جائیں گے۔ ان میں سے ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ ایسے بیلٹ باکس جن میں کسی امیدوار کے لیے نوے فیصد سے زائد ووٹ پڑے ہوں، انہیں کالعدم قرار دے دیا جائے۔
عبداللہ عبداللہ کے ترجمان کے مطابق، ’’بدقسمتی سے، انہیں (الیکشن کمیشن کو) اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ہمارے تحفظات کیا ہیں۔ اس لیے ہماری ٹیکنکل ٹیم اس عمل میں شریک نہیں ہو گی۔‘‘
بدھ کے روز عبداللہ عبداللہ کے بیان کے بعد اشرف غنی نے بھی ووٹوں کی جانچ پڑتال کے اس عمل سے اپنی ٹیم واپس بلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اشرف غنی کی ٹیم میں شامل ایک سینیئر مبصر نے بتایا کہ عبداللہ عبداللہ کے اعلان کے بعد اقوام متحدہ نے اس عمل کی شفافیت کے لیے اشرف غنی کی ٹیم سے درخواست کی تھی کہ وہ بھی اس عمل میں شریک نہ ہو۔ ادھر الیکشن کمیشن نے ان دونوں امیدواروں کی ٹیم کی غیرحاضری میں بھی ووٹوں کی چھان بین کا عمل جاری رکھنے کا کہا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ رواں برس 14 جون کو افغان صدارتی انتخابات کے دوسرے اور حتمی مرحلے میں الیکشن کمیشن کے مطابق 8.1 ملین افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ تاہم عبداللہ عبداللہ ان اعداد وشمار کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹرن آؤٹ اس سے کہیں کم تھا اور ان کے حریف کی طرف سے دھاندلی کی گئی۔ دوسرے صدارتی امیدوار اشرف غنی بھی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہیں اور اسی وجہ سے امریکی وزیرخارجہ جان کیری کی سخت سفارتی کوششوں کے بعد دونوں امیدوار ان ووٹوں کو جانچ پڑتال کے عمل پر متفق ہوئے تھے، جب کہ یہ عمل اقوام متحدہ کے مبصرین کی نگرانی میں ہو رہا ہے۔
دوسری جانب افغانستان میں اعلیٰ ترین امریکی فوجی کمانڈر کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے والے جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کہا ہے کہ صدارت انتخابات کا کوئی نتیجہ اب تک سامنے نہ آنے اور سیاسی بحران کی وجہ سے افغانستان میں مقامی فوجیوں کے تربیت کا عمل متاثر ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سیاسی بے چینی کا خاتمہ افغانستان میں طالبان کے خلاف فوجی فتح کو یقینی بنانے میں اہم ترین کردار کا حامل ہے۔
منگل 26 اگست کو افغانستان میں فوجی کمان، جنرل جان کیمبل کے سپرد کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اگلے برس جب افغانستان میں غیرملکی فوجی بہت کم تعداد میں ہوں گے، عسکریت پسند مقامی فورسز کی صلاحیتوں کا کڑا امتحان لے سکتے ہیں۔
کمان کی تبدیلی کی یہ تقریب کابل میں منعقد ہوئی، جس کے بعد جنرل ڈنفورڈ امریکا روانہ ہو گئے۔ انہوں نے 18 ماہ افغانستان میں امریکی فوجی کی قیادت کی۔ خبر رساں اداروں کے مطابق جنرل ڈنفورڈ نے امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں تیزی سے کمی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ادا کیا۔