عثمانی دور کا قتلِ عام، آرمینیا میں جذباتی یادگاری تقریب
24 اپریل 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ اور روسی صدر ولادیمر پوٹن نے آرمینیا کے دارالحکومت یے ریوان میں اس قتلِ عام کی سو سالہ تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر اولانڈ نے جدید ترکی پر زور دیا کہ وہ اس قتلِ عام کو ’نسل کشی‘ تسلیم نہ کرنے کی ضد چھوڑ دے۔ انہوں نے کہا کہ وہ آج اس قتل عام کے متاثرین کی یاد میں جھکتے ہیں۔
’’اس حوالے سے اہم الفاظ ترکی میں پہلے ہی کہے جا چکے ہیں، تاہم دوسرے اب بھی ترکی سے کچھ مزید کی توقع کرتے ہیں تاکہ ایک مشترکہ دکھ ایک مشترکہ قسمت بن جائے۔‘‘
ان تقریبات میں شرکت کے لیے قبرص اور سربیا کے رہنماؤں کے علاوہ دنیا کے 60 ممالک کے حکومتی وفود نے شرکت کی۔
صدر ولادیمر پوٹن نے کہا کہ روس سابق سوویت ریاست آرمینیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے اور خطے میں اسے اپنا ایک اہم اتحادی مانتا ہے۔ پوٹن خطاب کے لیے آئے تو تقریب میں موجود افراد نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر پوٹن کا کہنا تھا، ’انسانوں کے قتلِ عام کی نہ کوئی وضاحت ہے اور نہ ہی ہو سکتی ہے۔‘
اس قتلِ عام کے سو برس مکمل ہونے پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ایک مرتبہ پھر متاثرین سے ’ہمدردی‘ کا اظہار کیا ہے، تاہم یہ پہلا موقع تھا کہ ترک حکومت کے وزیر برائے یورپی امور ولکان بوزکیر نے جمعے کے روز استنبول میں ایک چرچ میں سن 1915 کے اس قتل عام کے متاثرین کے لیے دعائیہ عبادات میں شرکت کی۔
اس قتل عام کی ایک سو برس ہونے پر اپنے پیغام میں ترک صدر ایردوآن نے کہا، ’ہمارے دل عثمانی دور کے آرمینیائی باشندوں کی نئی نسلوں کے لیے کھلے ہیں۔‘
ادھر استبول میں اس حوالے سے ایک مختصر ریلی بھی نکالی گئی، جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اس قتلِ عام کو ’نسل کشی‘ قرار دے کر اس کی معذرت کی جائے۔
دوسری جانب جرمن پارلیمان کے اسپیکر نوبیرٹ لامیرٹ نے آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو ’نسل کشی‘ قرار دیا۔ جمعے کے روز جرمن پارلیمانی اسپیکر نے کہا کہ جرمنی کا اپنا نازی ماضی یہ سبق دیتا ہے کہ ایسے واقعات کے بارے میں آواز اٹھائی جائے۔ پارلیمان سے اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ اپنے ماضی کی وجہ سے جرمن کسی کو یہ لیکچر نہیں دے سکتے کہ ماضی سے کیسے نمٹا جائے مگر اپنے تجربے سے دوسروں کو یہ ضرور بتاسکتے ہیں کہ وہ ماضی سے کیسے سبق سیکھیں، چاہے ماضی کیسا ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو۔
یہ بات اہم ہے کہ مورخین کے مطابق سن 1914 تا 1915 تک جاری رہنے والے اس قتل عام میں مجموعی طور پر 1.5 ملین افراد قتل ہوئے تھے، تاہم ترک حکومت اس واقعے میں ہلاکتوں کے اعداد و شمار پر اعتراض کرتے ہوئے اسے خانہ جنگی کے دور کا شاخسانہ قرار دیتی ہے۔