حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کا انتخاب کالعدم قرار
30 جون 2022لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آج جمعرات 30 جون کو وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے دائر کردہ متعدد درخواستوں کی سماعت کے بعد جو آٹھ صفحاتی تحریری فیصلہ جاری کیا اس میں کہا گیا ہے کہ یکم جولائی (جمعے کے روز) پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے اور منحرف اراکین اسمبلی کو نکال کر وزارت اعلیٰ کے لیے دوبارہ گنتی کی جائے۔ فیصلے کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے لیے مطلوبہ نمبر حاصل نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ انتخاب کروا کر اکثریتی ووٹوں کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس اس وقت تک ختم نہیں کیا جائے گا جب تک وزیراعلیٰ کے انتخاب کے نتائج جاری نہیں کیے جاتے، جبکہ نتائج آنے کے بعد گورنر اگلے دن 11 بجے نو منتخب وزیراعلیٰ کا حلف لیں گے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں خبردار کیا کہ اگر کسی بھی فریق کی طرف سے اسمبلی سیشن کے دوران بدنظمی کی گئی تو اسے توہین عدالت تصور کیا جائے گا۔
اس کیس کے حوالے سے سنائے جانے والے مختصر فیصلے کے ساتھ جسٹس ساجد سیٹھی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی ضرورت نہیں۔ ڈپٹی اسپیکر کو وزیر اعلیٰ کا انتخاب دوبارہ کرانا چاہیے۔
لاہور ہائیکورٹ نے گزشتہ روز حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ہٹانے کے لیے درخواستوں پر سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔
بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق تازہ پیش رفت کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کئی ہفتوں سے جاری آئینی بحران اب بھی ختم ہوتا نہیں دکھائی دے رہا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پنجاب میں ایک دفعہ پھر بے یقینی کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے رہنما متضاد بیانات دے رہے ہیں لیکن غیر جانبدار مبصرین کا ماننا ہے کہ مسلم لیگ نون کے سربراہی میں حکومتی اتحاد کو نمبر گیم میں پی ٹی آئی پر برتری حاصل ہے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کے بقول تیزی سے بدلتی ہوئی صوبے کی سیاست میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یاد رہے جمعے کے روز ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اس اجلاس میں حمزہ شہباز شریف یا چوہدری پرویز الہی میں سے کسی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کے حوالے سے فیصلہ سامنے آئے گا۔
بین الاقوامی انگریزی اخبار سے وابستہ پاکستان کی ایک سینئر تجزیہ کار دردانہ نجم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف آیا ہے اور صورتحال میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوگی: ''حمزہ شہباز ہی وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ عدالت نے صرف سپریم کورٹ کے اس حکم نامے کو مد نظر رکھ کر یہ فیصلہ دیا ہے جس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ منحرف ارکان کے ووٹ کو ایسے انتخابات کی گنتی میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ منحرف اراکین کو نکال کر بھی اکثریت مسلم لیگ نون اور اس کے اتحادیوں کے پاس ہی ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انہیںاس لیے لگتا ہے کہ صورتحال تبدیل نہیں ہو گیکیونکہ پاکستان کی سیاست پر اثرانداز ہونے والی قوتیں نہیں چاہتیں کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ کسی قسم کے عدم استحکام کا شکار ہوجائے۔ ان کے بقول اگر اس مرحلے میں پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے تو پھر ملک میں معاشی استحکام بھی نہیں آ سکے گا اور اس کے ہم متحمل نہیں ہو سکیں گے۔
ایک اور سوال کے جواب میں دردانہ نجم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دنیا کے مہذب ملکوں میں حکومتیں بدلتیں رہتی ہیں انتخابات بھی ہوتے ہیں لیکن ہماری طرح کی جگ ہنسائی کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آتی: ''کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ میں چند ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو جان بوجھ کر ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے متمنی رہتے ہیں۔ انہیں شاید اس صورتحال کے نقصانات کا پوری طرح ادراک نہیں ہے۔ ‘‘
پاکستان کے ایک سینیئر صحافی فاروق عادل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی نظر میں اس فیصلے کے ذریعے مسلم لیگ نون کی اتحادی حکومت کو ریلیف ملا ہے اور ہلڑبازی، کشیدگی اور افراتفری کے ماحول میں وزیراعلیٰ پنجاب بننے والے حمزہ شہباز کو اب آئینی طریقے سے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا موقع مل گیا ہے اور نیا آئینی کور ملنے سے حمزہ شہباز زیادہ شفافیت اور زیادہ اعتماد کے ساتھ ایوان میں کھڑے ہو سکیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں فاروق عادل کا کہنا تھا، ''حمزہ شہباز کے دوبارہ وزیراعلیٰ منتخب ہونے کی صورت میں اس تاثر کو بھی تقویت ملے گی کہ ہوائیں حمزہ شہباز کی موافق سمت میں چل رہی ہیں اور اس تاثر سے مسلم لیگ نون کو ان ضمنی انتخابات میں فائدہ ہو گا جن میں پہلے ہی ان کی پوزیشن بہتر دکھائی دے رہی ہے۔‘‘