عراق اور افغانستان میں امریکہ کی جنگی بے بسی
2 جولائی 2008اس لئے کہ افغانستاں میں اپنی سات سالہ اورعراق میں پانچ سالہ جنگ کے دوران امریکی فوج ان دونوں ہی ملکوں میں ہر وہ حربہ استعمال کر چکی ہے جووہ جانتی ہے۔
ان ملکوں میں امریکی فوج اب اپنے سپاہیوں کی لاشیں گنتے رہنے پر مجبور ہے۔ صرف جون کے مہینے میں عراق میں 31 اورافغانستان میں 45 اتحادی فوجی ہلاک ہوئے حالا نکہ امریکی مئوقف کے مطا بق عراق میں پر تشدد کارروائیوں میں دراصل کمی ہوئی ہے۔ لیکن کئی فوجی ماہرین یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ اگر پر تشدد واقعات میں کمی ہوئی ہے تو فوجی ہلاکتوں میں اتنا اضافہ کیوں ؟
امریکہ میں Brookings Institute کے عراقی امور کے ایک ماہرMichael O'Hanlon کے مطابق عراق میں نظر آنے والی پیش رفت حیرت انگیز ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جب سے امریکہ نے عراق میں اپنے فوجی دستوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے، وہاں عام شہریوں پر پر تشدد حملوں میں قریب 80 فیصد تک کمی آچکی ہے۔ یہ بات امریکی فوج، عراقی حکومت اور عراق میں صورت حال پر نظر رکھنے والے غیر جانبدار تحقیقی اداروں سمیت سبھی حلقوں کے اعدادوشمار سے ثابت ہوجاتی ہے۔
عراق سے امریکہ کی جلد از جلد فوجی واپسی کے مطالبات بظاہر کم ہو گئے ہیں اور وہاں آئے روز کے ہلاکت خیز واقعات کی ذرائع ابلاغ میں نظر آنے والی ہولناک تصویریں بھی اب اتنی زیادہ نہیں ہوتیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں عراق اور افغانستان کی جنگ کے حوالے سے سنائی دینے والے بیانات کو دیکھا جائے تو یہ بھی سچ ہے کہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار باراک اوباما کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ صدر منتخب ہو گئے تو سولہ ماہ کے اندر اندر عراق سے امریکی فوج واپس بلا لی جائے گی۔ لیکن کیا اوباما واقعی ایسا کربھی سکیں گے؟
Michael O'Hanlon کا کہنا ہے کہ اتنا تیز رفتار فوجی انخلاء نہ صرف بہت بڑی غلطی ہو گی بلکہ یوں سال رواں کے اوائل سے آج تک وہاں حاصل ہونے والی کامیابیاں بھی رائیگاں جائیں گی ۔ اس کے برعکس باراک اوباما اپنے اس نقطہ نظر میں قدرے حق بجانب ہیں کہ افغانستاں میں مزید امریکی فوجی متعین کئے جانا چاہیئں۔
دوسری طرف امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کئی ماہ سے یہ تنبیہہ کر رہے ہیں کہ امریکہ نے تو اپنے مزید ساڑھے تین ہزار فوجی بھی افغانستان بھیج دیئے ہیں مگر وہاں اتحادی دستوں کی مجموعی تعداد میں اب تک جو بھی اضافہ کیاگیا ہے وہ کافی نہیں ہے۔
افغانستان میں اضا فی فوجی دستے صرف اسی صورت متعین کئے جا سکتے ہیں جب عراق سے اتحادی دستے جزوی طور پر واپس بھی بلا ئے جائیں۔ اسی لئے امریکہ کواپنی عسکری صلاحیتوں کا بہت محتاط استعمال کرنا ہوگا۔ خاص طور پر اس بناء پر بھی کہ واشنگٹن عراق اور افغانستان میں اب تک بہت سے جنگی حربے استعمال کر چکا ہے۔ بات اگر بعد از جنگ تعمیر نو کی کی جائے تو امریکہ کے پاس ایسے ماہرین کی بھی کمی ہے جو جنگوں سے متاثرہ علاقوں میں تعمیرنو اور اقتصادی ترقیاتی عمل میں حصہ لے سکیں۔ اس بارے میں امریکی وزیردفاع گیٹس کہتے ہیں کہ سرد جنگ کے انتہائی دور میں امریکہ کی ایجنسی برائے ترقی کے کارکنوں کی تعداد سولہ ہزار تھی جو بہت کم ہوکراب صرف تین ہزار رہ گئی ہے۔ آج امریکہ کے پاس ایسے بہت زیادہ ماہرین نہیں ہیں۔
انہی جملہ عوامل کے تناظر میں بہت سے ماہرین یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ کی جنگی بے بسی شدید تر ہوتی جارہی ہے۔