عراق سے فوج نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں، امریکی وزیر دفاع
7 جنوری 2020امریکی میڈیا میں چھپنے والی بعض رپورٹوں کے مطابق امریکا کی طرف سے لکھے گئے ایک ملٹری خط میں عراقی حکام کو مطلع کیا گیا ہے کہ عراق میں تعینات امریکی فوج کو وہاں سے نکال کر کسی اور جگہ منتقل کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر جمعہ تین جنوری کو ایرانی فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی کو عراقی دارالحکومت بغداد میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ سلیمانی کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد ایران کی دوسری طاقتور ترین شخصیت قرار دیا جاتا تھا۔
امریکی فضائی حملے میں قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد عراقی پارلیمان نے اتوار پانچ جنوری کو ایک متفقہ قرارداد منظور کی تھی جس میں غیر ملکی افواج کو عراق چھوڑ دینے کا کہا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عراقی حکام کو لکھے گئے امریکی ملٹری خط میں کہا گیا کہ امریکی سربراہی میں عراق میں تعینات اتحادی فورسز وہاں سے نکلنے کے لیے ہیلی کاپٹرز کا استعمال کریں گی۔ پیر کی شب بغداد میں ہیلی کاپٹروں کی پروازیں دیکھی بھی گئیں مگر یہ بات فوری طور پر واضح نہ ہو سکی کہ ان پروازوں کا فوجی انخلاء سے کوئی تعلق تھا یا نہیں۔
اسی تناظر میں امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے پیر چھ جنوری کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''سر دست عراق کو چھوڑنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ عراق چھوڑنے کی تیاری کا بھی کوئی منصوبہ جاری نہیں کیا گیا: ''مجھے نہیں معلوم کہ وہ خط کیا ہے... ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور وہ ہے کیا۔ مگر عراق کو چھوڑنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ بات ختم۔‘‘
امریکی ملٹری جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک مِلی نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ خط دراصل ایک ڈرافٹ دستاویز تھی جس میں امریکی فورسز کی نقل و حرکت میں اضافے کا ذکر کیا گیا تھا، مگر غیر واضح ہونے کے سبب اسے انخلاء کا منصوبہ سمجھ لیا گیا۔ ان کا کہنا تھا، ''ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔‘‘
روئٹرز کے مطابق تاہم عراقی وزارت دفاع کے کمبائنڈ جوائنٹ آپریشنز کے نام لکھے گئے اس خط کے مستند ہونے کی تصدیق عراقی فوجی ذرائع نے بھی کی تھی۔
ا ب ا / ع ح (روئٹرز)