عراق میں ایرانی حمايت يافتہ ملیشیا کے خلاف امریکی کارروائی
13 مارچ 2020پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فضائیہ نے عراق میں ایران کی حمایت یافتہ شعیہ ملیشیا کتائب حزب اللہ سے منسلک اسلحے کے پانچ ذخائر کو نشانہ بنایا ہے۔ امریکی محمکہ دفاع نے الزام عائد کيا ہے کہ يہی گروپ ایک روز قبل تاجی میں فوجی اتحاد کے ايک ٹھکانے کو نشانہ بنانے ميں ملوث تھا۔ واضح رہے کہ بدھ دس فروری کو تاجی میں امریکی فوجی اڈے پر حملے میں تین فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
جمعرات بارہ مارچ کو کيے گئے فضائی حملوں سے متعلق پینٹاگون نے اپنے بیان میں کہا، ’’امریکا نے دفاعی نکتہ نظر سے عراق کے مختلف مقامات پر کتائب حزب اللہ کی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی کے لیے استعمال میں آنے والے ان ٹھکانوں میں وہ اسلحہ بھی تھا، جسے امریکی اتحادی فوج پر حملے کے لیے استعمال کیا گيا تھا۔‘‘
عراقی فوج کا کہنا ہے امریکی حملے میں ملک کی پیرا ملٹری فورسز، پولیس اور فوج کے چار مختلف مقامات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے مطابق جرف الاسخر، الامسیّب اور نجف جیسے علاقوں کو نشانہ بنایا گيا ہے جو پیرا ملٹری فورسز کی یونٹ اور ہنگامی حالات کے لیے عراقی فوج کے خصوصی کمانڈوز کا ٹھکانہ ہیں۔
کربلا میں ایئر پورٹ سے وابستہ ایک ملازم نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ کربلا میں زیر تعمیر ایئر پورٹ پر بھی بمباری کی گئی۔ اس سے قبل امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں اختیارات دیے ہیں کہ اگر سلامتی کے ليے کسی طرح کے اقدامات کرنے کی ضرورت پڑے، تو ان کی نگرانی میں ایسا کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارے افراد، ہمارے مفادات اور ہمارے اتحادیوں پر ہونے والے حملے ہم کبھی نہیں برداشت کريں گے۔ جیسا کہ ہم نے حالیہ دنوں میں واضح کیا ہے کہ ہم عراق اور اس پورے خطے میں اپنی فورسز کے تحفظ کے لیے جو بھی کرنے کی ضرورت ہوگی، وہ کریں گے۔‘‘
اس سال کے اوائل میں امریکا کے ایک ڈرون حملے میں ایران کی قدس فورس کے سینئر کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراق میں ایک ایران نواز شیعہ ملیشیا گروہ کے کمانڈر ابو مہدی المہندس ہلاک ہو گئے تھے۔ ایران نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے عراق میں امریکی فورسز کے ایک ٹھکانے پر بیلسٹک میزائل داغے۔ اس حملے میں 100سے زیادہ امریکی فوجی اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔ امریکی محکمہ دفاع پينٹاگون کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ان فوجیوں کو شدید دماغی چوٹیں آئی تھیں۔
امریکا اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی میں مزید اضافے کو روکنے کے لیے امریکی کانگریس نے حال ہی میں ایک قرارداد کی منظوری دی تھی، جس کے تحت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کانگریس کی اجازت کے بغیر ایران کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہیں کر سکتے۔
ص ز / ع س ( نيوز ایجنسیاں)