عراق میں خود کش حملہ، ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 ہوگئی
18 جولائی 2010یہ حملہ اتوار کے دن دارالحکومت بغداد سے پچیس کلو میٹر دور واقع ردوانیہ نامی علاقے میں اس وقت ہوا جب القاعدہ مخالف ساہوا ملیشیا کے کارکنان اپنی تنخواہیں لینے کے لئے ایک قطار میں کھڑے تھے۔
عراق میں وزرات دفاع اور داخلہ نے اس خود کش حملے کی تصدیق کرتے ہوئے ہلاکتوں کی تعداد جاری کردی ہے۔ اطلاعات کےمطابق یہ حملہ مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے کیا گیا۔ اس خود کش حملے میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق ساہوا ملیشیا سے ہے۔
ساہوا ملیشیا نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے اور القاعدہ کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ سن دو ہزار چھ میں ہی کر لیا تھا۔ تب سے ہی ان پر دہشت گردانہ حملے ہو رہے ہیں۔ القاعدہ کے خلاف سرگرم اس ملیشیا کے کارکنان میں افغان قبائلی اور سابقہ باغی شامل ہیں، جو حکومتی سرپرستی میں اپنی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔
اتوار کو ہونے والا یہ حملہ گزشتہ دو مہینوں میں بدترین حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ عراقی حکام کے مطابق ساہوا ملیشیا کے کارکنان ردوانیہ میں واقع ایک فوجی اڈے کے باہر اپنی تنخواہیں لینے کے لئے جمع تھے کہ ایک خود کش حملہ آور نے انہیں نشانہ بنایا۔ شاہدین کے مطابق خود کش حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی گئی تو اس نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا۔
خبر رساں ادارے AFP کے مطابق ہلاک شدگان میں کم ازکم چھ عراقی فوجیوں کے علاوہ تین اکاونٹینٹ بھی شامل ہیں۔ اس حملے میں تیرہ فوجی زخمی بھی ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق حملے کے وقت وہاں ساہوا ملیشیا کے کم ازکم 85 کارکنان موجود تھے۔
ماہرین پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ عراق میں سیاسی عدم استحکام کے باعث تشدد آمیز کارراوئیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف عراق میں پارلیمانی انتخابات کے کوئی چار ماہ بعد بھی ابھی تک حکومت سازی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ہے۔ وزیراعظم نوری المالکی اور اپوزیشن رہنما ایلاد علاوی ، ان انتخابات میں بڑی قوت بن کر ابھرے ہیں تاہم دونوں ہی اکیلے حکومت سازی کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ دونوں کا کہنا ہے کہ وہ وزیر اعظم کے لئے بہترین امیدوار ہیں، جس کی وجہ سے عراق میں حکومت سازی کے عمل میں مشکلات درپیش ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: کشور مصطفیٰ