عراق میں داعش اپنے زیر قبضہ نصف علاقوں سے محروم
17 مئی 2016امریکا کی طرف سے جاری ہونے والی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق داعش کی پیش قدمی تو ایک عرصہ پہلے ہی روک دی گئی تھی لیکن اب اس کے زیر کنٹرول علاقوں کی تعداد بھی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ قبل ازیں امریکی محکمہٴ دفاع نے یہ اندازے لگائے تھے کہ عراق میں یہ جہادی تنظیم تقریباﹰ چالیس فیصد علاقوں پر اپنا کنٹرول کھو چکی ہے اور شام میں اس تنظیم کے زیر قبضہ علاقوں میں سے دس فیصد کو ’’دوبارہ آزاد‘‘ کروا لیا گیا ہے۔
پینٹاگون کے ایک ترجمان پیٹر کُک کا کہنا تھا کہ حالیہ ہفتوں میں داعش کے خلاف کامیابیوں میں اضافہ ہوا ہے اور کئی علاقوں پر ان کا کنٹرول ختم کر دیا گیا ہے۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’عراق میں جن علاقوں پر داعش کا قبضہ تھا، ان میں سے پینتالیس فیصد واپس حاصل کر لیے گئے ہیں اور اسی طرح شام میں سولہ سے بیس فیصد علاقہ واپس لے لیا گیا ہے۔‘‘
سن دو ہزار چودہ کے آغاز میں جہادی تنظیم داعش نے عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ عراق میں اس تنظیم کو مقامی سکیورٹی دستوں کی طرف سے انتہائی کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ شام میں اس تنظیم نے وہاں کی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی علاقوں پر قبضہ جما لیا تھا۔
امریکا اور اس کی اتحادی اگست دو ہزار چودہ سے اس گروپ کے خلاف فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ داعش سے لڑنے کے لیے مقامی فورسز کو تربیت کے ساتھ ساتھ اسلحہ بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔
عراق میں داعش رمادی اور ہیت نامی شہروں پر سے اپنا کنٹرول کھو چکی ہے جبکہ موصل اور فلوجہ جیسے بڑے شہروں پر ابھی تک اس کا کنٹرول ہے۔ شام میں الرقہ جیسے اہم شہر کا کنٹرول بھی داعش کے ہاتھ میں ہے۔ داعش نے الرقہ کو اپنی نام نہاد ’’خلافت‘‘ کا دارالحکومت قرار دے رکھا ہے۔
قبل ازیں شامی فورسز نے تاریخی شہر پالمیرا میں داعش کے جنگجوؤں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا تھا۔ اس قدیمی شہر کی بازیابی کو بھی داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تھا۔