1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں زائرین دہشت گردی کا نشانہ

9 نومبر 2010

عراق میں مضبوط حکومت کی عدم موجودگی میں پیدا شدہ انتظامی خلا کا بھرپور فائدہ دہشت گرد اٹھا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے تازہ واقعات میں دو درجن سے زائد افرادکی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/Q20F
عراق میں سکیورٹی الرٹتصویر: AP

عراق کے فوجی اور پولیس کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ جنوبی عراق میں تین کار بم حملوں میں کم از کم اٹھائیس افراد ہلاک اوردرجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ کاربم حملوں کا نشانہ کلی طور پر شیعہ آبادی تھی۔ دو بم نجف اشرف اور کربلائے معلیٰ میں پھٹے اور ان کا ٹارگٹ وہاں کے مزارات کی زیارت کو جانے والے شیعہ زائرین تھے۔ ان دونوں شہروں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اٹھارہ تھی جن میں سے 10 کا تعلق ایران سے تھا۔ طبی اور سکیورٹی ذرائع کے مطابق ساٹھ کے قریب افراد زخمی حالت میں مختلف طبی مراکز تک پہنچائے گئے ہیں۔

Irak Anschlag auf Außenministerium in Bagdad
عراق میں ایک سابقہ کار بم دھماکے کا مقامتصویر: AP

کربلا میں کار پر سوار خود کش بمبار نے زائرین کی بس کے قریب پہنچ کر خود کودھماکہ خیز مادہ سے اڑا دیا۔ اس بس میں ایرانی بھی سوار تھے۔ ایسا ہی ایک دوسرا کار بم دھماکہ نجف میں ہوا۔ کربلا میں چار اور نجف میں چھ ایرانی زائرین شہید ہوئے۔عراق کے ایک اور جنوبی شہر بصرہ میں بھی کار بم پھٹنے کے واقعہ میں ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ یہ بھی شیعہ اکثریت پر مشتمل شہر ہے۔ بندرگاہی اور تیل کی دولت سے مالامال شہر بصرہ کی پرہجوم مارکیٹ میں کاربم پھٹنے میں کم از کم دس افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔

بصرہ میں ہونے والے بم دھماکے کی تصدیق پولیس چیف میجر جنرل عادل ضہام نے کی ہے۔ ضہام کے مطابق یہ ایک خود کش کار بم حملہ تھا۔ بصرہ شہر کے بعض دوسرے سکیورٹی ذرائع کا خیال ہے کہ بم کو مارکیٹ میں کھڑے ایک ٹرک میں نصب کیا گیا تھا اور اس کو بعد میں ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ چلایا گیا۔ عراق کے دوسرے مختلف شہروں میں بھی لاقانونیت کے واقعات ہو رہے ہیں اور ان میں ہلاکتیں بھی رونما ہوئی ہیں۔

Irak Doppelbombenanschlag Zwillingsbomben Baghdad
کاربم دھماکے میں استعمال ہونے والی کار اور تفتیشی عملتصویر: AP

یہ امر اہم ہے کہ یہ بم دھماکے ایسے وقت میں ہوئے جب کل پیر کو کرد شہر اربیل میں شیعہ، سنی اور کرد سیاسی لیڈران کی ملاقات ہوئی۔ اس میں نوری المالکی اور ایاد علاوی بھی شریک تھے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ مالکی کے شیعہ اتحاد نے کرد سیاسی نمائندوں کے ساتھ اتحاد کی ڈیل کو حتمی شکل دے دی ہے۔ اس مناسبت سے بات چیت کا عمل منگل اور بدھ کو بھی جاری رہے گا۔

صدر، وزیر اعظم اور اسپیکر کے ناموں کا اعلان جمعرات کو متوقع ہے۔ عراقی حکومت کے ترجمان کے مطابق مفاہمت کے تحت جلال طالبانی بطور صدر اور نوری المالکی کو بطور وزیر اعظم اپنے عہدوں پر قائم رکھا گیا ہے۔ مالکی کا اتحاد اسپیکر کے لئے اپنے امیدوار نامزد کرے گا۔ پارلیمنٹ کا اجلاس جمعرات کو شڈیول ہے۔

دوسری جانب دہشت گردی کی تازہ لہر کے حوالے سے عراق کے وزیر خارجہ ہوشیار زیباری کے مطابق مارچ کے انتخابات کے بعد مضبوط حکومت کے قائم نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد مسلسل اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

پیر کو عراقی پارلیمنٹ کے اجلاس میں منتخب نمائندے ایک بار پھر اسپیکر کے انتخاب میں ناکام رہے ہیں۔ اس طرح حکومت سازی کا عمل آٹھ ماہ کے بعد بھی تعطل کا شکار رہا۔ سردست بڑے سیاسی اتحاد اپنے اپنے مطالبات پر کسی قسم کی بھی مفاہمت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں