عراق کا بدلتا منظر نامہ
29 جون 2009امریکی فوجیوں اور عراقی مذاکرات کاروں کے مابین مہینوں جاری رہنے والی بات چیت کے بعد فوجیوں کی تعیناتی سے متعلق ایک معاہدہ طے پایا جس میں عراق متعین امریکی فوج سے متعلق اہم فیصلے شامل ہیں۔ خاص طور سے عراق سے امریکی فوج کے بتدریج انخلاء کے منصوبے سے متعلق۔ اس عمل کو سہل تر بنانے میں یقیناً باراک اوباما کے چند اعلانات کا بڑا ہاتھ ہے جو انھوں نے اس وقت کئے تھے جب وہ امریکی صدارتی انتخاب کے ڈیموکریٹ امیدوار کی حیثیت سے انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ اوباما نے کہا تھا کہ وہ 16 ماہ کے اندر اندر عراق سے امریکی فوجی واپس بلا لیں گے۔ تب اوباما نے کہا تھا کہ عراق میں سن 2006 ء اور سن 2007 ء کی خوفناک ہلاکتوں کے مقابلے میں تشدد میں واضح کمی آئی ہے۔
تاہم عراق میں امریکی جزوی فوجی انخلاء کے پہلے مرحلے کے طے شدہ نظام الاوقات سے چند دن پہلے ہی عراق میں غیر متوقع طور پر تشدد کی ایک نئی لہر نے ان گنت انسانوں کو لقمہ اجل بنا دیا۔ یہ واقعات امریکیوں اور عراقیوں کے لئے غیر معمولی دباؤ اور پریشانیوں سے نبٹنے کا ایک اہم امتحان تھے۔ اب تک عراقی قیادت اس امر کا یقین دلا رہی ہے کہ وہ جلد اپنے شہروں کی سلامتی کو یقینی بنانے کی اہل ہوگی۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ تشدد کے نئے واقعات کے پیش نظر امریکی فوج کے انخلاء کے پہلے مرحلے کو منسوخ کر دیا جائے۔
امریکی فوج کا یہ انخلاء دراصل جزوی انخلاء ہوگا کیونکہ اس کے تحت امریکی فوج محض عراقی شہروں کو چھوڑے گی، پورے عراق کو نہیں۔ اس تناظر میں 30 جون کو امریکی فوج کا عراقی شہروں سے انخلاء اس پلان کا ابتدائی حصہ ہے جو تین مرحلوں میں عراق میں امریکی فوج کی تعیناتی کے خاتمے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ منصوبے کے تحت 2010 ء تک شہروں سے امریکی فوجی انخلاء مکمل ہوجائے گا جس کے بعد عراق متعین ایک لاکھ 30 ہزار امریکی فوجیوں میں سے 35 سے 60 ہزار تک امریکی فوجی وہاں متعین رہیں گے۔ تاہم ان کے فرائض نئے ہوں گے۔ اس بارے میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کہتے ہیں کہ ان کے فوجی فرائض بنیادی طور پر معاونت اور مشاورت ہوں گے۔ انسداد دہشت گردی کے آپرشنز کم ہوں گے اور ہمارے ایسے فوجی عراق میں تعینات رہیں گے جو عراقی فوجیوں کی تربیت کے پروگراموں میں شامل ہیں۔
صدر باراک اوباما نے بھی عراق میں متعین امریکی فوجیوں کے مستقبل کے فرائض کے بارے میں ملکی بحریہ کے مسلح دستوں سے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ عراق سے جنگی فوجی یونٹ واپس بلانے کے بعد ان کا مشن تبدیل ہو جائے گا۔ جنگ سے ہٹ کر عراقی حکومت اور سلامتی کے اداروں کی معاونت امریکی فوجیوں کا مشن ہوگی جو یہ اہم ذمہ داری سنبھالیں گے۔ تاہم مبصرین اور ماہرین اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں کہ عراقی سیکیورٹی فورسز اپنے زور بازو پر اپنے وطن میں سلامتی کی صورتحال پر قابو پا سکیں گی۔