عراق کی صورتحال دیرینہ دشمنوں کی قربت کا سبب
13 اگست 2014جہادیوں کے غلبے کے پیش نظر ایران اور امریکا مل کر عراق کو بچانا چاہتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے جمشید فاروقی کا کہنا ہے کہ ایران اور امریکا کے اشتراک عمل اور تعاون کے بغیر عراق ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔
عراق کی بقاء کو اس وقت دو اہم ترین بحرانوں سے خطرات لاحق ہیں۔ ایک سیاسی نوعیت کا ہے جس کی وجہ وزارت عظمیٰ کے لیے جاری طاقت کے حصول کی جنگ، دوسرا بحران دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کی شمالی عراق میں بپا کی ہوئی شورش اور وہاں اُس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ۔ عراق میں پیدا ہونے والی سنگین صورتحال کی ذمہ داری ایران اور امریکا دونوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ امریکا پر اس لیے کہ عراق پر قبضے اور اُس کے بعد کئی سالوں تک عراق سے متعلق امریکی پالیسی کے نتیجے میں اس ملک کا بنیادی سیاسی ڈھانچہ بُری طرح تباہ ہوا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک میں سلامتی کی صورتحال ڈرامائی حد تک خراب ہو چُکی ہے۔ عراق کی جنگ ایک خوفناک غلطی تھی، اس بارے میں شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں۔ تاہم ان حالات و واقعات پر نظر ڈالنے کا عمل کسی طورپر بھی تنازعے کا کوئی موثر حل پیش نہیں کرسکتا ہے۔
اُدھر ایرانی آیت اللہ بھی عراق کی صورتحال کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے عراق میں صدام حسین کے اقتدار کے خاتمے کے بعد وہاں پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو یکطرفہ طور پر اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ نوری المالکی کے وزیراعظم ہونے کا ایران کو یہ فائدہ پہنچ رہا تھا کہ وہ عراقی حکومت کے ایسے چوٹی کے اہلکار تھے جن کے ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔ مالکی نے وزیر اعظم کے عہدے پر فائض رہتے ہوئے ہمیشہ وہ کیا جو ایران کے آیت اللہ کرتے اور کہتے رہے۔ اس طرح عراق میں تمام تر سیاسی طاقت شیعوں کے پاس رہی جنہوں نے کسی بھی سیاسی فیصلے میں سنیُوں کو شامل نہیں ہونے دیا۔
یہ سنگین نتائج کا سبب بننے والی غلطی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عراقی سنیوں میں پائے جانے والے عدم اطمینان کی وجہ سے زیادہ تر سنی نوجوان مردوں نے انتہاپسندوں کی فوج کا رُخ کیا۔ رہی سہی کسر سلامتی کی ناقص صورتحال اور امریکی ہتھیاروں کے سیلاب نے پوری کر دی۔ اس سب کا نتیجہ عراق میں اسلامک اسٹیٹ ملیشیا کی پیش قدمی کی صورت میں سامنے آیا۔
عراق کے معاملے میں اب ایران اور امریکا میں تعاون کوئی رضاکارانہ فیصلہ نہیں ہے بلکہ دونوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ نہ تو واشنگٹن نہ ہی تہران تنہا عراق میں اسلامک اسٹیٹ کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔