عراقی جنگ میں برطانوی کردار: تحقیقات کا آغاز
30 جولائی 2009عراق جنگ میں برطانیہ کےکردار سے متعلق یہ تیسری انکوائری ہے جس کے لئے سماعتوں کا آغاز رواں برس کے آخر تک ہوگا۔ اس کی قیادت سر جان چلکوٹ کر رہے ہیں جو سرکاری ملازم رہ چکے ہیں اور 2004ء میں ایسی ہی ایک تفتیشی ٹیم کے رکن بھی۔
جمعرات کو لندن میں صحافیوں سے بات چیت میں سر جان نے بتایا کہ ان کی تفتیشی ٹیم حقائق کی چھان بین کے لئے عراق کا دورہ کرے گی، ساتھ ہی برطانیہ سمیت عراقی جنگ میں شامل ممالک کے حکام سے بات چیت بھی کی جائے گی۔
انکوائری ٹیم حکومتی دستاویزات تک رسائی کی کوشش بھی کرے گی جبکہ 2003ء سے عراقی جنگ میں ہلاک ہونے والے 791 برطانوی فوجیوں کے خاندانوں سے بھی بات چیت کرے گی۔
اس تفتیش کا اعلان وزیر اعظم گورڈن براؤن نےگزشتہ ماہ کیا تھا۔ تاہم یہ وعدہ کچھ عرصہ قبل کیا گیا تھا کہ عراقی سے برطانوی فوجیوں کے انخلاء پر ایسی تفیش شروع کی جائے گی۔
دوسری جانب گورڈن براؤن نے چند ماہ قبل اپنے ایک بیان میں عراق جنگ کو کامیاب قرار دیتے ہوئے اس کی کامیابی کا سہرا برطانوی فوجیوں کے سر رکھا تھا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عراق میں ان کا مشن آسان نہیں رہا اور بیشتر لوگ ان کی ناکامی کا خدشہ ظاہر کرتے رہے ہیں۔
عراق جنگ میں برطانیہ کے کردار میں 2004ء میں ہُوٹن اور بٹلر کے نام سے دو انکوائری ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں جو خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کرسکیں۔
ان تحقیقات کے نتائج کا اعلان آئندہ برس کے آخر تک متوقع ہے۔ تاہم اسے آئندہ سال برطانیہ میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے شائع نہیں کیا جائے گا۔ سر جان نے واضح کیا کہ یہ تفتیشی عمل کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہے اور نہ کسی کے خلاف کوئی مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ پھر بھی غلطیوں کا پتا چلنے پر انہیں ضرور واضح کیا جائے گا۔
امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ 2003ء میں عراق پر حملہ کیا تھا۔ اس جنگ کی حمایت پر اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہی تنقید 2007ء میں ان کے وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑنے کی ایک بڑی وجہ رہی۔
رپورٹ: ندیم گل
ادارت: عدنان اسحاق