عراق کا صدارتی الیکشن غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی
7 فروری 2022
عراق میں آج پیر سات فروری کو صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ ہونا تھی تاہم پارلیمان میں نمائندگی کے حامل سیاسی دھڑوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور رائے دہی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ عراق میں چار ماہ قبل عام انتخابات کا انعقاد ہوا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک نئے ملکی وزیر اعظم کا انتخاب ممکن نہیں ہو سکا۔ ریاستی سربراہ کے چناؤ کے لیے پارلیمان میں رائے دہی پیر کی دوپہر ہونا تھی۔ چار سالہ مدت کے لیے اس عہدے پر اس وقت عراقی کرد اقلیت سے تعلق رکھنے والے برہم صالح فائز ہیں۔
پارلیمانی کارروائی
عراقی پارلیمان میں صدارتی انتخاب کے لیے رائے دہی اس وقت کھٹائی میں پڑ گئی، جب مختلف پارلیمانی دھڑوں اور سیاسی گروپوں نے اجلاس کے بائیکاٹ کی سلسلہ وار کال دے دی ۔ بغداد کے انتہائی سخت حفاظتی انتظامات والے گرین زون میں قائم 329 نشستوں والی پارلیمان میں مطلوب دوتہائی ارکان کی موجودگی کے امکانات بھی کم ہی نظر آرہے تھے۔
پیر کی سہ پہر محض چند درجن ممبران ہی پارلیمانی ایوان میں جمع ہوئے۔ ایک سرکاری اہلکار نے قبل ازیں اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کر دی تھی کہ پیر سات فروری کو ''صدارتی الیکشن کے لیے ووٹنگ نہیں ہو گی،‘‘
عراق کی سیاسی بدامنی، مہاجرین کے بحران میں شدت
سیاسی انتشار کا پس منظر
عراق میں گزشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ٹرن آؤٹ ریکارڈ حد تک کم تھا۔ اس کی وجہ الیکش سے پہلے کی دھمکیاں اور تشدد کا سلسلہ بنے۔ اس کے علاوہ الیکشن کے حتمی نتائج کی تصدیق میں بھی کئی ماہ کا عرصہ لگ گیا اور اس تاخیر کی وجہ سے سیاسی گروپوں کے مابین سنجیدہ مذاکرات کے باوجود پارلیمان میں کسی اکثریتی اتحاد کی تشکیل ممکن نہ ہو سکی اور مصطفیٰ الکاظمی کی جگہ نئے وزیر اعظم کا چناؤ بھی ممکن نہ ہو سکا۔
ہفتے کے روز صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ کے بائیکاٹ کا اعلان سب سے پہلے عراقی پارلیمان میں سب سے بڑے بلاک نے کیا تھا، جس کی قیادت طاقت ور شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کر رہے ہیں۔ ان کے دھڑے کے پاس پارلیمان کی 73 سیٹیں ہیں۔ ان کی تقلید کرتے ہوئے اتوار کو 51 رکنی 'خود مختار اتحاد‘ نے بھی ووٹنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ اس اتحاد کے رہنما مقتدیٰ الصدر کے قریبی ساتھی اور موجودہ پارلیمانی اسپیکر محمد الحلبوسی ہیں۔
ادھر عراقی پارلیمان میں 31 نشستوں والی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے ڈی پی نے بھی دریں اثناء اعلان کر دیا کہ وہ بھی سیاسی دھڑوں اور گروپوں کے مابین مشاورت اور مکالمت میں حصہ نہیں لے گی۔ عراق کے ایک اور اہم سیاسی بلاک 'کوآپریشن فریم ورک‘ نے بھی، جو کئی شیعہ جماعتوں کا گروپ ہے، موجودہ سیاسی بحران کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ پارلیمانی اجلاس منعقد ہی نہیں ہونا چاہیےجرمنی: عراقی جہادی کو یزیدی نسل کُشی کے جرم میں عمر قید کی سزا۔
سپریم کورٹ کا اعلان
پیر کے روز مجوزہ صدارتی ووٹنگ کے عمل کو اس وقت مزید دھچکا لگا جب اتوار کے روز ملکی سپریم کورٹ نے برہم صالح کے ایک کلیدی حریف اور 68 سالہ لیڈر ہوشیار زیباری کی صدارتی امیدواری کی معطلی کا اعلان کر دیا۔
کے ڈی پی کے لیڈر اور سابق وزیر خارجہ ہوشیار زیباری پر عدالت نے بدعنوانی کے الزامات عائد کیے ہیں تاہم زیباری ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ زیباری نے گزشتہ جمعے کے روز ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کہا تھا، ''مجھے کسی بھی عدالت نے مجرم نہیں ٹھہرایا۔‘‘ ان پر عدالتی الزامات ایسے وقت پر سامنے آئے، جب صدارتی چناؤ کے لیے ووٹنگ سے قبل یہ پیش گوئیاں سامنے آنے لگی تھیں کہ زیباری غالباً صالح کے صدارتی منصب سے ہٹ جانے کا سبب بنیں گے۔
موجودہ 25 صدارتی امیدواروں میں دوسرے نمبر پر صالح ہیں، جو عراقی کردستان کے علاقے میں کے ڈی پی کی مرکزی حریف 'پیٹریاٹک یونین آف کردستان‘ پی یو کے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دریں اثناء سپریم کورٹ کا موقف یہ تھا کہ وہ مختلف قانون سازوں کی طرف سے شکایات موصول ہونے پر زیباری کو معطل کر رہی ہے اور بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے ان کی امیدواری 'غیر آئینی‘ ہے۔
عراق میں بڑھتی کشیدگی اور شیعہ گروپوں میں تقسیم
اطلاعات کے مطابق شکایت کنندگان نے ان کے 'مالی اور انتظامی بدعنوانی‘ سے متعلق الزامات میں 2016 ء میں پارلیمان کی طرف سے وزیر خزانہ کے عہدے سے برطرف کیے جانے کا حوالہ دیا۔ ان پر لگے الزامات میں کم از کم دو دیگر عدالتی مقدمات بھی شامل ہیں، جن میں 2003ء میں امریکا کی قیادت میں حملے کے نتیجے میں صدام حسین کے دور کے خاتمے کے بعد سے ان کے طویل عرصے تک وزیر خارجہ رہنے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
عراقی عدالت کی جانب سے ٹرمپ کی گرفتاری وارنٹ جاری
عراق میں صدارتی انتخاب کا التوا وہاں موجودہ سیاسی بحران میں مزید شدت پیدا کر سکتا ہے کیونکہ ملک میں صدر ہی اپنے انتخاب کے بعد 15 روز کے اندر اندر پارلیمان میں سب سے بڑے سیاسی دھڑے کے کسی سیاستدان کو نیا وزیر اعظم نامزد کر سکتا ہے۔
ک م / م م (اے ایف پی)