عراقی وزیراعظم ڈرون قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے
7 نومبر 2021عراق کے وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی کو اتوار سات نومبر کی انتہائی صبح بارود سے لدے ڈرونز سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب ملک میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا گروہ کے احتجاجی مظاہروں اور ہنگاموں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس گروہ نے چند ہفتے پہلے ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ان دنوں ملکی سکیورٹی فورسز اور اس گروہ کے مابین بھی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس گروہ کے حامی تقریبا ایک ماہ سے گرین زون کے باہر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
اس قاتلانہ حملے میں الکاظمی پوری طرح محفوظ رہے ہیں۔ ڈرونز حملے میں کئی افراد کے زخمی ہونے کا بھی بتایا گیا ہے۔ زخمیوں میں وزیراعظم کے محافظ دستے کے سات اراکین بھی شامل ہیں۔ بغداد سے ملکی فوج نے اس حملے کو وزیراعظم پر قاتلانہ جبکہ عراقی وزیراعظم کے دفتر نے اسے دہشت گردی کا ایک فعل قرار دیا۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس حملے میں دو ڈرون استعمال کیے گئے۔ اس حملے کے بعد عراقی وزیراعظم کا ٹویٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عراق کی خاطر سبھی لوگ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں، ''خدا کا شکر ہے، میں اپنے لوگوں میں موجود ہوں اور صحیح سلامت ہوں۔‘‘
اس حملے کے بعد عراقی وزیراعظم نے ٹیلی وژن پر قوم سے مختصر خطاب بھی کیا۔ وہ سفید شرٹ پہنے ہوئے ایک ڈیسک کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور پرسکون دکھائی دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا، بزدلانہ طریقے سے راکٹ اور ڈرون حملے نہ تو وطن بناتے ہیں اور نہ ہی مستقبل۔‘‘
ابھی تک کسی بھی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
عالمی ردعمل
امریکی حکام نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے بغداد حکومت کو ہر قسم کے تعاون اور مدد کی پیشکش کی ہے۔ دوسری جانب سلامتی کے اعلیٰ ترین ایرانی اہلکار کی جانب سے بھی مذمت سامنے آئی ہے۔
سعودی وزارت خارجہ نے بھی فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے ایک ''بزدلانہ دہشت گردانہ حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ رانج علاءالدین نے اپنے ٹویٹر پر ایک پوسٹ کی ہے، جس میں کہا گہا ہے، ''قتل کی یہ کوشش ایک ڈرامائی اضافہ ہے، ایک لائن کو بھیانک انداز میں عبور کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کا ردعمل پرتشدد ہو سکتا ہے۔‘‘
ا ا / ع ح (اے پی، ڈی پی اے)